ابھرتی ہوئی گلوبل گِگ اکانومی میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

718

لاہور: ہر صبح محمد اکرم خان لاہور کینٹ میں واقع اپنے گھر سے ڈیفنس فیز فائیو میں ایک چھوٹے سے دفتر کے لیے نکلتے ہیں جس عمارت میں ان کا دفتر ہے جو باہر سے تو سادہ سا نظر آتا ہے۔ علاقے کے مرکزی ایریا کے قریب ہونے کی وجہ سے اس جگہ کا کرایہ کم نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’ہم اس دفتر کا ماہانہ 2 لاکھ روپے کرایہ ادا کرتے ہیں۔ ہم صرف تین افراد ہیں اور یہ ہمارے لیے بہت مناسب ہے۔ یقیناً ہمیں دیکھ بھال، بنیادی دفتری عملے اور بہت سی سہولیات کیلئے اس کے اوپر ادائیگی کرنا پڑتی ہے لیکن ہم یہ کام کافی آرام سے کر لیتے ہیں۔‘‘

اکرم خان اور دیگر دو افراد (ایک مرد اور ایک خاتون) جن کے ساتھ مل کر اس نے یہ جگہ کرایہ پر لی ہوئی ہے ایک لگژری سے کم نہیں اور وہ یہ لگژری دفتر چلانا برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ تینوں فری لانسرز ہیں جنہوں نے مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کی اور خاص طور پر غیرملکی کلائنٹس کیلئے کام کرتے ہیں۔ وہ ڈالر میں کماتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ 

انہوں نے بے فکری کے سے انداز میں  کہا کہ ’’ہمیں واقعی دفتر کی جگہ کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس یہاں دفتر چل کر آنے والے کلائنٹس نہیں ہیں، ہمارے پاس بہت زیادہ مہمان بھی نہیں آتے۔ ہمارے تمام ملازمین دور سے کام کرتے ہیں اور یہ صرف اس لیے ہے تاکہ ہم اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھا سکیں۔ بصورت دیگر ہمارے تمام کام بہت آسانی سے گھر سے کیے جا سکتے ہیں۔‘‘ 

اکرم اور اس کے دو ساتھیوں کا الگ الگ کام ہے۔ ان کی ملاقات  آن لائن فورمز کے ذریعے ہوئی جہاں فری لانسرز اپنی تجارت پر گفتگو کرتے ہیں۔ آپس میں تبادلہ خیال کرتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اکرم کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ’’ہم دفتر کھولنے سے پہلے ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ ہوا یوں کہ ہمارے ایک واٹس ایپ گروپ پر یہ بات چل رہی تھی کہ ہم میں سے کچھ لوگ دفتر سے کام کیسے چھوڑتے ہیں۔ ہم تینوں کا خیال تھا کہ کام کیلئے ایک اپنی جگہ ہونی چاہیے، چنانچہ یہ دفتر بنا لیا۔‘‘

پاکستان کی معیشت جہاں گہرے مسائل کا شکار ہے، مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، ملک گمبھیر معاشی مسائل کی دلدل میں پھنس چکا ہے، زیادہ تر تنخواہ دار طبقے کو اپنی بقا کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ رہا ہے اور آگے تاریکی ہی تاریکی ہے تو ایسی صورتحال میں لازمی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس روئے زمین پر کیوںکر تین افراد یہ کہتے ہیں کہ انہیں دفتر کی جگہ کی ضرورت نہیں اور وہ کرایہ پر شہر کے مہنگے علاقے میں بھی رہ رہے ہیں۔ جب ہم نے اکرم خان سے پوچھا تو انہوں نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ’’ہم کافی اچھا کما رہے ہیں اور چونکہ ہم ڈالر میں کما رہے ہیں اس لئے اسے برقرار رکھنا اتنا مشکل نہیں ہے۔‘‘

یہ تینوں افراد پاکستانیوں کے اُس ابھرتے ہوئے نوجوانوں کے گروپ کا حصہ ہیں جو خود کو عالمی ’گِگ اکانومی‘ کا لازمی حصہ سمجھ رہے ہیں۔ اَپ ورک (Upwork) اور فائیور (Fiverr) جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے انہوں نے اپنا پورا کیرئیر بنایا ہے اور جن کو پاکستان میں زیادہ تر تنخواہ دار لوگوں سے کہیں زیادہ بہتر پیسہ اور تحفظ مل رہا ہے۔

گگ اکانومی لیبر مارکیٹ کا وہ حصہ (لوگ) ہے جو مستقل ملازمتوں کے برعکس قلیل مدتی معاہدوں یا فری لانس کام کرتا ہے۔ یہ بالکل نیا تصور نہیں ہے۔ یہ ورکنگ فریم ورک اس وقت سے موجود ہے جب بزنس کے شعبے میں عارضی یا سیزنل کارکنوں کی خدمات حاصل کی جانے لگیں ۔ خلاصہ یہ کہ ہر وہ شخص جو گگ اکانومی کے حصے کے طور پر کام کرتا ہے وہ اپنے آپ میں ایک چھوٹی سے فرم یا کمپنی ہے۔ وہ کلائنٹس تلاش کرتے ہیں، ان کیلئے کام کرتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں اور پھر اگلے پروجیکٹ یا اگلے کلائنٹ کی طرف چل پڑتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: 

فری لانسرز کی آن لائن رجسٹریشن کے لیے پورٹل کا افتتاح

انٹرنیٹ کی بندش کیسے پاکستانی فری لانسنگ انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے؟

اکرم خان کہتے ہیں کہ ’’میں پیشہ کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہوں۔ میں نے میڈیسن میں اپنی ڈگری مکمل کی اور ہائوس جاب کے دوران ماہانہ صرف 40 ہزار روپے کما رہا تھا۔۔۔ ایک موقع پر مجھے پیسوں کی ضرورت تھی تو ایک دوست نے مشورہ دیا کہ میں آن لائن کانٹنٹ رائٹنگ کا کام تلاش کروں۔ میں نے کام شروع کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‘‘ 

آج اکرم نے کانٹنٹ رائٹنگ سے آگے بڑھ کر سرچ انجن آپٹیمائزیشن میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ پچھلے مہینے انہوں نے اپنے آن لائن کام سے ساڑھے 3 ہزار ڈالر کمائے۔ لگ بھگ 10 لاکھ کا یہ کام ترجمہ کا کام تھا۔ اکرم خان کا کہنا ہے وہ 28 برس کی عمر میں میڈیسن کے اپنے کسی بھی بیچ میٹ سے زیادہ کما رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ ممکنہ طور پر بین الاقوامی فرمز، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے بینکوں کے لیے مشاورت کا کام کرنے والوں سے بھی زیادہ کمائی کر رہے ہیں۔ 

’’گِگ اکانومی‘‘ پاکستان میں ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہے۔ پاکستانی فری لانسرز نے 2021ء اور 2022ء میں تقریباً 40 کروڑ ڈالر کمائے جو پاکستان کی کل 2.6 ارب ڈالر کی آئی سی ٹی (انفارمیشن- کمیونیکیشن- ٹیکنالوجی) برآمدات کا تقریباً 15 فیصد بنتا ہے۔

یہ بات کچھ عرصے سے عیاں ہو رہی ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں گگ اکانومی ایک حقیقت بن چکی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے بے روزگاری تشویش ناک حد تک زیادہ ہے اور اس کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم  (15 سے 29 سال)  کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جو اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی پاکستان نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق کل افرادی قوت کا 41.6 فیصد ہے۔ آبادی کی اس شرح  کیلئے گگ اکانومی ماڈل ایک خوش آئند حل ہو سکتا ہے۔ آکسفرڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں 2017ء میں کل فری لانس کام کے تقریباً 8 فیصد کے ساتھ عالمی ڈیجیٹل گگ مارکیٹ میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح 2021 میں پاکستان نے فری لانسنگ سے 50 کروڑ ڈالر کمائے اور فری لانسرز کے لیے دنیا میں زیادہ تیزی سے ابھرنے والی پہلی چار منڈیوں میں شامل ہوا۔

اسی  رپورٹ کے مطابق پاکستان نے 2017ء کے اوائل میں مکمل طور پر فری لانسنگ گگز سے ایک ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کی۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ پاکستان نے عالمی گگ اکانومی میں 8 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالا۔ پاکستان گریجویٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے چوتھے نمبر پر ہے جو اپنی مہارت سے فری لانسنگ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے کاروبار، کمپیوٹر سائنس اور سافٹ ویئر انجینئرنگ کے مختلف شعبوں سے سالانہ تقریباََ 60 ہزار گریجویٹس پیدا کرتے ہیں۔ اس پول کو ان کی بہتر اجرت کی شرح کی وجہ سے فری لانسنگ ملازمتوں کی طرف راغب کیا گیا ہے۔

’’یہاں بہت سے مختلف قسم کے گگ ورکرز ہیں۔ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے سافٹ ویئر انجینئرز اور وہ لوگ ہیں جو کوڈنگ کر سکتے ہیں۔ تاہم اس کیلئے بہت سے لوگوں نے پاکستان میں پوری کمپنیاں قائم کر رکھی ہیں۔ وہ مسابقتی تنخواہ پر باصلاحیت گریجویٹس کو ملازمت دیتے ہیں اور انہیں اپنے پاس موجود بہت سے کلائنٹس کیلئے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایک شخص جو فری لانسر بننے سے پہلے ایسے ہی ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں ملازم تھا، نے بتایا کہ ’’میں اب فری لانسنگ سے بہت زیادہ پیسہ کما رہا ہوں لیکن مجھے پروفائل بنانے اور باقاعدہ کلائنٹس کا اعتماد حاصل کرنے میں وقت لگا۔‘‘

یہ عام طور پر ایک مسئلہ ہے۔ ایل ایس ای میں پیش کردہ تحقیقی مقالہ مقبول فری لانسنگ ویب سائٹ گرو ڈاٹ کام سے حاصل کردہ اعدادوشمار پر مبنی تھا۔ پلیٹ فارم پر موجود پاکستانیوں کے ڈیٹا سے یہ بات سامنے آئی کہ اس پلیٹ فارم کے 85 ہزار فری لانسرز  ارکان میں سے صرف 1100 (1.3 فیصد ) نے ہی لین دین مکمل کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان ویب سائٹس کو سائن اپ کرنے والے تقریباً 99 فیصد لوگ کلائنٹ تلاش نہیں کر پاتے۔ اب معاملے کو اس سیاق و سباق میں دیکھیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، فری لانسرز پاکستان کی کل آئی سی ٹی برآمدات کا تقریباً 15 فیصد حصہ دار ہیں اور یہ صرف انفرادی فری لانسرز ہیں۔ اس کے اوپر آئی ٹی سروسز جیسے ویب ڈویلپمنٹ، لوگو ڈیزائن، گرافک ڈیزائننگ، موبائل ایپس کے ڈویلپرز اور جاوا کا گراف نیچے آ گیا جبکہ نان آئی ٹی سروسز جیسے کانٹنٹ رائٹنگ، ترجمہ اور ورچوئل اسسٹنٹ شپ میں اضافہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان  نوجوان افراد میں گِگ ورک کی مانگ بڑھ رہی ہے جو پاکستان کی جاب مارکیٹ سے اپنی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے۔ یہ حیران کن بات ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 

زیر سمندر انٹرنیٹ کا مالک کون؟

انٹرنیٹ کی معطلی، ٹیلی کام آپریٹرز کو ایک دن میں 82 کروڑ روپے نقصان

عمران خان کی گرفتاری اور انٹرنیٹ کی بندش، ڈیجیٹل پاکستان کومے میں چلا گیا!

پاکستان نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اگلے پانچ سالوں میں 45 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ 15 سے 29 برس کے نوجوانوں کو روزگار مل سکے۔ پاکستان کی آبادی تیزی سے نوجوان ہو رہی ہے اور گِگ اکانومی کے ذریعے غیرملکی پیسہ کمانے کے مواقع تلاش کر رہی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قسم کی ملازمت تلاش کرنے کے خواہش مند افراد کو اس میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے- خطرناک اعدادوشمار کی وجہ سے کہ صرف ایک فیصد لوگوں کو واقعی کام ملتا ہے۔

آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی) کے 2018ء کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں اپنی افرادی قوت کا تقریباً 2 فیصد آن لائن اور لوکیشن بیسڈ سروسز کے ذریعے پلیٹ فارم اکانومی میں مصروف ہے۔ ماہرین اس بات پر غور کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان اپنے نوجوانوں کی نمایاں تعداد کے ساتھ اس انتہائی کم تعداد کو کیسے بڑھا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 40 لاکھ نوجوان کام کرنے کی عمر میں داخل ہوتے ہیں۔ تاہم صرف  10 لاکھ افراد روزگار حاصل کرنے کے قابل ہیں۔

آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی) کے 2018 کے تخمینے کے مطابق، پاکستان میں اپنی لیبر فورس کا تقریباً 2 فیصد آن لائن اور لوکیشن بیسڈ سروسز کے ذریعے پلیٹ فارم اکانومی میں مصروف ہے۔ ماہرین اس بات پر غور کر رہے  ہیں کہ پاکستان اپنے نوجوانوں کی نمایاں تعداد کے ساتھ اس انتہائی کم تعداد کو کیسے بڑھا سکتا ہے۔

گگ اکانومی محض تلاش کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک راستہ ہے۔ یاد رکھیں آنے والی تمام رقم ڈالر میں ہے۔ اور خراب معاشی صورتحال میں ایسے کاروباری افراد کی حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہے۔ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آئی ٹی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے جاندار حکومتی پالیسیاں بنانا ہوں گی۔

یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ فری لانسرز کو کئی مسائل پریشان کرتے ہیں۔ پے پال جیسے ادائیگی کے گیٹ ویز تک پوری رسائی نہ ہونے سے فری لانسرز کے لیے کافی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بینکنگ سسٹم بھی اس قسم کے کام کی ترغیب دیتا ہے جبکہ اسے حقیقت میں اس کے برعکس کرنا چاہیے۔

ایل ایس ای میں پیش کردہ ایک مقالے کے مطابق فری لانس کارکنوں کی اکثریت پنجاب، سندھ اور اسلام آباد سے ہے،جبکہ  شمالی علاقہ جات اور آزاد جموں و کشمیر میں بھی کچھ انتہائی فعال کارکن موجود ہیں۔ جب کہ پروفائلز کی اکثریت مردوں کی ہے، تقریباً ایک تہائی خواتین کی ہے۔ سرچ انجن آپٹیمائزیشن، ای کامرس، اور کسٹمر سروسز میں سالانہ کمائی سب سے زیادہ ہے۔

گگ اکانومی کی کامیابی کیلئے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ صحیح پالیسیوں اور حوصلہ افزائی سے گگ اکانومی اور اس کی سروسز بہت اچھی طرح سے پاکستان کا اگلا بڑا ایکسپورٹ سیکٹر بن سکتا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here