انٹرنیٹ کی بندش کیسے پاکستانی فری لانسنگ انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے؟

818

اِن دِنوں پاکستان کی معیشت مکمل تباہی کی تصویر پیش کر رہی ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے جس نے تنخواہ دار طبقے کا جینا محال کر رکھا ہے۔ ملک دیوالیہ ہونے کی افواہیں زیر گردش ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق سالانہ تقریباََ 40 لاکھ پاکستانی نوجوان کام کرنے کی عمر کو پہنچتے ہیں مگر بہ مشکل 10 لاکھ نوجوان کوئی نوکری حاصل کر پاتے ہیں۔ 

اس قسم کے بدترین حالات میں جب زیادہ تر پاکستانی نوجوان نوکریوں کے ذریعے اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی بآسانی پوری نہیں کر پاتے تو وہ عالمی سطح پر ’’گِگ اکانومی‘‘ کا حصہ بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اکثریت نے فائیور اور اَپ ورک جیسے پلیٹ فارمز پر کام کر کے بہترین کیرئیرز بنا لیے ہیں جہاں اُن کی آمدن کسی بھی نوکری کے مقابلے میں ناصرف زیادہ ہے بلکہ محفوظ بھی ہے۔ 

آپ نے ایسے لوگوں کے بارے میں ’’فری لانسرز‘‘ کی اصطلاح سنی ہو گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بیرونی صارفین کیلئے کام کرنے کیلئے مختلف شعبوں میں مہارتیں حاصل کیں اور اب ڈالروں میں کما رہے ہیں۔ ان کی آمدن پاکستانی روپے کی گراوٹ اور مہنگائی جیسے عوامل سے بھی متاثر نہیں ہوتی۔

تاہم پاکستانی فری لانسرز کو بھی ایک بحران کا سامنا ہے۔ شائد ہی انہیں ماضی میں ایسا تلخ تجربہ ہوا ہو۔ پاکستانی کی ڈگمگاتی معیشت کی طرح پاکستانی سیاست بھی عدم استحکام کا شکار ہے اور فری لانسرز اس کے بدترین نتائج کا نشانہ بن رہے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھیے: 

عمران خان کی گرفتاری اور انٹرنیٹ کی بندش، ڈیجیٹل پاکستان کومے میں چلا گیا!

9 مئی کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان گرفتار ہوئے تو ردعمل احتجاجی مظاہروں، راستوں کی بندش، فوجی چھائونیوں پر حملوں، سوشل میڈیا پر پابندی اور انٹرنیٹ کی بندش کی صورت میں سامنے آیا۔ ملک میں سماجی رابطوں کے تمام پلیٹ فامرز بشمول فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب کو غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیا گیا اور زیادہ تر لوگ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک رسائی کیلئے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ تاہم انٹرنیٹ کی بندش سے صرف سوشل میڈیا صارفین ہی مشکلات کا شکار نہیں بلکہ فری لانسنگ اور گِگ اکانومی سے وابستہ افراد کیلئے اس کے نتائج کافی تباہ کن ہیں۔

ذرائع کے مطابق فائیور نے خود ہی پاکستانی فری لانسرز کو گگز (gigs) دکھانا بند کر دیں تاکہ انٹرنیٹ کی بندش کے باعث ان کے جوابی ردعمل میں تاخیر سے ان کی درجہ بندی متاثر نہ ہو۔ ’’پرافٹ‘‘ کو ایک فری لانس ایجنسی کے مالک نے بتایا کہ فائیور کی جانب سے اپنے کلائنٹس کو مطلع کیا گیا ہے کہ انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے پاکستانی فری لانسرز ان کا کام مقررہ وقت میں مکمل کرنے سے قاصر ہوں گے۔

اس قسم کے واقعات پاکستان میں ابھرتی ہوئی فری لانس انڈسٹری کو ناصرف شدید خطرات سے دوچار کرتے ہیں بلکہ اس کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ صنعت اپنے قدم مضبوطی سے جمانے سے قبل ہی ختم ہو سکتی ہے۔ 

’’ڈاٹ کام عربیہ‘‘ کے چیف ایگزیکٹو عرفان احمد کے مطابق ’’ایسے اقدامات کی وجہ سے پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت تباہ ہو رہی ہے۔ عصرِ حاضر میں انٹرنیٹ کی بندش کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔‘‘

یہ گِگ اکانومی ہے یا لیبر مارکیٹ کا وہ طبقہ جو مستقل ملازمتوں کے برعکس مختصر مدت کے معاہدوں یا فری لانس کام کی وجہ سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے حالانکہ یہ کوئی نیا تصور نہیں۔ کام کا یہ طریقہ کار اُس وقت سے موجود ہے جب سے کاروباروں نے عارضی کارکنوں کی خدمات حاصل کرنا شروع کیں۔ بنیادی طور پر ہر وہ فرد جو گِگ اکانومی کے حصے کے طور پر کام کرتا ہے وہ اپنے آپ میں ایک چھوٹی فرم یا کمپنی ہے۔ وہ کلائنٹس تلاش کرتے ہیں، ان کا کام کرکے جمع کراتے ہیں اور اپنی رقم حاصل کرتے ہیں اور اگلے پروجیکٹ یا اگلے کلائنٹ پر چلے جاتے ہیں۔

پاکستان میں یہ شعبہ ترقی پذیر ہے۔ سن 2021ء اور 2022ء کے دوران پاکستانی فری لانسرز نے 40 کروڑ ڈالر کمائے جو ملک کی انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) سے متعقلہ 2 ارب 60 کروڑ ڈالر کی برآمدات کا تقریباََ 15 فیصد ہے۔ 

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے گِگ اکانومی ایک بہترین ماڈل ہے کیونکہ ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے اور اکثریت بے روزگاروں کی ہے۔ 

آکسفرڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں 2017ء میں دنیا بھر میں فری لانس ورک میں پاکستانی فری لانسرز کا حصہ 8 فیصد تھا اور پاکستان چوتھے درجے پر رہا۔ یہی رپورٹ بتاتی ہے کہ کیسے 2021ء میں پاکستانی فری لانسرز نے 50 کروڑ ڈالر کمائے اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی فری لانس مارکیٹس میں پاکستان چوتھے نمبر پر رہا۔ 

انٹرنیٹ کی بندش کے علاوہ بھی پاکستانی فری لانسرز کو متعدد مسائل درپیش ہیں۔ مثلاََ پے پال جیسے ادائیگیوں کے تیز ترین اور جدید ذرائع تک رسائی میسر نہیں۔ اس لیے انہیں بیرونی کلائنٹس سے اپنی محنت کی کمائی حاصل کرنے کیلئے ہزار ہا قسم کے جتن کرنا پڑتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر بینکاری نظام کو فری لانسرز کو سہولیات دینی چاہییں لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ 

پچھلے چار چھ سالوں کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ پاکستانی فری لانسرز کی صلاحتیں کسی سے کم نہیں۔ محض درست پالیسیاں بنا دی جائیں اور معمولی سی حوصلہ افزائی کر دی جائے تو پاکستان بین الاقوامی گگ اکانومی کا اگلا بڑا ایکسپورٹر بن سکتا ہے۔ تاہم غیریقینی کی کیفیت اور سیاسی عدم استحکام گگ اکانومی کو گہرے اور شائد ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر سکتا ہے۔ 

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here