پٹرول پر سبسڈی! مسائل ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جائیں گے

536

لاہور: حکومت نے متوسط اور غریب طبقات کو ریلیف دینے کی غرض سے پہلے تو موٹر سائیکلوں اور پھر رکشوں کیلئے پٹرول پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا بعد میں چھوٹی کاروں کو بھی اس میں شامل کر لیا۔ یہ اقدام  یقیناً نیک نیتی سے اٹھایا جا رہا ہے لیکن اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت نے چند ہفتے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں یعنی موٹر سائیکلوں، رکشوں اور آٹھ سو سی سی گاڑیوں کو پٹرول 75 روپے فی لٹر سستا فراہم کرے گی۔ واقعی یہ ایک بڑا کام ہے لیکن اس کے لیے حکومت کے پاس کوئی فنانسنگ پلان موجود نہیں اور اس کا زیادہ تر انحصار دیگر تمام صارفین کے لیے فیول کی قیمتوں میں اضافے پر ہے۔

ملک میں سرکاری طور پر اڑھائی کروڑ سے زیادہ موٹر سائیکل اور رکشے چل رہے ہیں۔ فرض کریں کہ فی گاڑی روزانہ آدھا لیٹر کھپت ہو تو حکومت گویا ایک کروڑ 25 لاکھ لیٹر پٹرول سستے نرخوں پر دینا (یا فنانسنگ) چاہ رہی ہے۔ پٹرول جب سستا ملے گا تو کھپت بڑھے گی اور ڈیمانڈ میں بھی اضافہ ہو گا۔ جیسے جیسے طلب بڑھتی ہے اسی طرح پٹرولیم درآمدات بھی بڑھیں گی جن کا لامحالہ اثر غیرملکی زرمبادلہ ذخائر پر پڑے گا جو پہلے ہی کم ترین سطح پر ہیں۔

اس طرح کی کراس سبسڈی سالانہ تقریباً 450 ارب روپے بنتی ہے۔ اس سیاق و سباق میں  دیکھا جائے تو جس ماہانہ رقم کی ضرورت ہے وہ کراچی میں گرین لائن کے قیام کے لیے درکار سرمائے کے اخراجات کے تقریباً مساوی ہے۔ ایندھن کی کھپت پر سبسڈی دینے کے بجائے توانائی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پورے ملک میں پبلک ٹرانزٹ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا زیادہ معنی خیز ہے۔ ایندھن پر سبسڈی دینا ایک پیچیدہ سوال کا سب سے سست اور سب سے زیادہ نقصان دہ حل ہے۔

ایک بنیادی ضرورت کی چیز کی دو قیمتیں رائج کرنے سے کئی قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس سے ایک غیر رسمی شیڈو مارکیٹ وجود میں آ سکتی ہے۔ لوگوں سستا خریدا گیا پٹرول ذخیرہ کرکے خود بیچنا شروع کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: 

غریبوں کیلئے پٹرول 100 روپے سستا، امراء کیلئے 100 روپے مہنگا

پیٹرولیم ڈیلرز کو عدم ادائیگی کا خوف، پٹرول سبسڈی منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی ناکام ہونے کا خدشہ

یہ ایک ایسے وقت میں ایندھن کی کھپت کو بھی بڑھا دے گا جب ملک اپنی درآمدی ضروریات کے پندرہ دن کو بھی پورا کرنے کے لیے بمشکل اتنے وسائل کو ضائع کر سکتا ہے۔ قیمتوں کے تعین میں اس طرح کا تضاد ایک مالی محرک (fiscal stimulus) کے طور پر کام کرے گا اور ایندھن کی طلب میں اضافہ کرے گا جس کے نتیجے میں پہلے سے کمزور ہوتے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر پر مزید دباؤ پڑے گا۔

اس طرح کے اقدام کو مؤثر طریقے سے انجام دینے کے لیے موٹر سائیکلوں اور رکشوں کے لیے کوٹہ قائم کرنے کی ضرورت ہو گی جو شناختی نمبروں کے ساتھ منسلک ہیں، جن تک ادائیگی کے بنیادی ڈھانچے کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس طرح کا بنیادی ڈھانچہ پہلے سے موجود ہے، لیکن یہ بغیر کسی رکاوٹ کے کیسے کام کر سکتا ہے، اور اس سے کیسے کھیلا نہیں جا سکتا، یہ ایک سوال ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ یہ اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ کسی بھی فنانسنگ کو ہدف بنایا جائے۔ تاہم ایک متوازی مارکیٹ کی تخلیق اور ایک مالی محرک جو بیرونی ذخائر کی پوزیشن پر مزید دباؤ ڈالتا ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی موجود رہیں گے۔

ہم مکمل مالیاتی بحران کے دہانے پر ہیں۔ تو ایسی صورت حال میں مزید گمراہ کن مہم جوئی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ہم اپنی  اصلاح کی نیم دلانہ کوشش کرنے کے بجائے خود کو کنارے پر دھکیل دیں۔ گلوبل میکرو اکنامک سائیکل کے اس مرحلے پر ایندھن کی کھپت پر سبسڈی دینا ایک بُری پالیسی ہے جس کے منفی نتائج سامنے آنے میں صرف چند ماہ ہی لگیں گے، جیسا کہ 2021ء کے ابتدائی حصے میں دی گئی ایندھن کی سبسڈی میں ہوا تھا۔

ایک اور اہم بات یہ کہ یہ سکیم آئی ایم ایف کے پروگرام کو پٹڑی سے اتار دے گی، اس کے علاوہ کسی بھی ممکنہ دو طرفہ فنڈنگ کے ہوتے ہوئے ملک کو مزید تباہی سے دوچار کر دے گی۔ یہ ایک ناپختہ ذہن اور غیر پیشہ ورانہ سوچ کا منصوبہ ہے اور اس کے غیر ارادی نتائج  تیزی سے بڑھتی ہوئی غیر رسمی مارکیٹ (جس کے نتیجے میں ٹیکسوں کی وصولی کم ہو گی) کی تشکیل کا باعث بنیں  گے اور آخر کار ملک کو ایک مکمل مالیاتی تباہی کا سامنا ہو گا ۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here