لاہور: اینگرو کارپوریشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ 31 مارچ 2023ء کو ختم ہونے والے مالی سال کی پہلی سہ ماہی کیلئے 40 روپے فی شیئر کے حساب سے ایک عبوری نقد منافع (cash devidend) جاری کر رہی ہے جو شئیر کی قیمت کا 400 فیصد ہے۔
اینگرو کی جانب سے جاری کردہ منافع (dividends) کی کل رقم 23 ارب روپے بنتی ہے۔ اس نقد منافع سے جہاں اقلیتی شیئر ہولڈرز خوش ہوئے ہیں، وہیں یہ کمپنی میں مایوسی کو ظاہر کو کرتا ہے۔ کم از کم پچھلے پانچ سالوں سے اینگرو 70 کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کی مالک ہے۔ یہ رقم اس نے اپنی ذیلی کمپنی اینگرو فوڈز کو ایک ڈچ کمپنی کے ہاتھوں فروخت کرکے اور اپنی کھاد ساز اینگرو فرٹیلائزر کے 2016ء میں ایک تہائی شئیرز کی فروخت سے حاصل کی تھی۔
جب سے اینگرو نے ان کاروباروں کو کیش آؤٹ کیا ہے وہ پورے پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے اور اپنا کاروبار بڑھانے کیلئے کوشاں ہے۔
جب بھی کوئی کمپنی ایسی فروخت کرتی ہے تو اس کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ فوری طور پر ان کے شیئر ہولڈرز کو بطور منافع یا دوسری صورت میں رقم تقسیم کی جائے۔
دوسرا آپشن یہ ہوتا ہے کہ کیش پر رہیں، اس پر سود کمائیں، اسے کمپنی کے حساب کتاب میں رکھیں اور اس رقم کو سرمایہ کاری میں لگائیں اور اپنے کاروبار کو بڑھانے کے مواقع تلاش کریں۔
اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اینگرو انتظامیہ نے فروخت سے پہلے بہتر کاروباری مواقع کو حتمی شکل نہیں دی۔
اینگرو نے دوسرا آپشن اپنایا۔ 2016ء سے کمپنی لاجسٹکس، ٹیلی کام، انفراسٹرکچر اور شعبہ صحت میں سرمایہ کاری پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے جبکہ کئی دیگر شعبوں سے متعلق فزیبلٹی سٹڈی اور تحقیق بھی کی گئی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اپنانے کے قابل ثابت نہیں ہوا۔
پرافٹ کے سابق منیجنگ ایڈیٹر فاروق ترمذی بتاتے ہیں ’اس ڈیویڈنڈ کی ادائیگی کا بنیادی طور پر مطلب گویا اینگرو کا یہ کہنا ہے کہ ’’پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے کوئی جگہ نہیں، تو یہ رہا آپ کا پیسہ۔‘‘ فاروق ترمذی کے مطابق اس سے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اینگرو ایک کمپنی کے طور پر پاکستان کی کمزور معیشت کیلئے بہت بڑی ہے۔
اور یہ وہ مقام ہے جہاں اس ڈیویڈنڈ کی ادائیگی کے پیچھے دوسری وجہ سامنے آتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ میکرو اکنامک حالات نے ملک میں سرمایہ کاری کے قابل تقریباً ہر صنعت کو جِلا بخشی ہے۔ بورڈ کے ڈیویڈنڈ کی ادائیگی کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک پریس ریلیز میں اینگرو نے کہا ہے کہ ضرورت سے زیادہ لاگت اور مشینری پر درآمدی پابندیوں کا مطلب ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری مشکل ہے۔
ایک بڑی سیکیورٹیز بروکریج فرم کے سربراہ کے مطابق ’’ایسا لگتا ہے کہ ان (اینگرو) کے پاس خاصی رقم موجود ہے اور فی الحال ان کے پاس موجود رقم کا اس سے بہتر استعمال نہیں ہو سکتا۔ تمام توسیعی منصوبے روکے ہوئے ہیں۔ اینگرو سرگرمی کے ساتھ ایک منصوبہ مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ میکرو اکانومی نے انہیں ڈیویڈنڈ ادا کرنے پر مجبور کیا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیے:
کسانوں کو ایگری فنانسنگ کی سہولت فراہم کرنے کیلئے اینگرو فرٹیلائزرز اور بینک آف پنجاب کا معاہدہ
ٹیلی کام سیکٹر میں سرمایہ کاری، اینگرو کا پانچ بینکوں کیساتھ ساڑھے 4 ارب کی سینڈیکیٹڈ سہولت کیلئے اشتراک
ان حالات میں کیا یہ تعجب خیز بات ہے کہ اینگرو نے ایک ایسے ملک میں نقدی کے ڈھیر پر بیٹھنے کے بجائے اپنے شیئر ہولڈرز کو ادائیگی کرنے کا فیصلہ کیا جہاں اس رقم کی سرمایہ کاری کے لیے بہت کم ترغیب دی جاتی ہے؟ اس کے باوجود اپنے سراسر سائز اور جڑت کی وجہ سے اینگرو پاکستان سے بالکل نہیں نکل سکتی۔ اپنی پریس ریلیز میں کمپنی نے دعویٰ کیا کہ ’’اس فیصلے کا کمپنی کے طویل المدتی سرمایہ کاری کے پروگرام پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا جو مستقبل کے منافع یا سرمائے کی دوبارہ تقسیم کو برقرار رکھتے ہوئے فنڈز فراہم کرتا رہے گا۔‘‘ بنیادی طور پر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر حالات بہتر ہوتے ہیں تو ہم دوبارہ ٹریک پر آ جائیں گے۔
لیکن اینگرو اس مقام تک کیسے پہنچا اور مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے؟
آئیے کچھ پیچھے نظر دوڑاتے ہیں۔ 2001ء میں اینگرو صرف کھاد کا کاروبار کر رہی تھی اور وہ اپنا پیسہ اسی شعبے میں لگانے پر تیار تھی۔ اسی لیے ڈہرکی سندھ میں یوریا بنانے کا پلانٹ بنایا جو دنیا کا سب سے بڑا یوریا بنانے کا کارخانہ ہے جس کی تعمیر پر ایک ارب 10 کروڑ ڈالر لاگت آئی جو پاکستان میں نجی شعبے کی اب تک سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔
اور یہ اینگرو کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک ثابت ہوئی۔ یہ غلطی کیسے اور کیوں ہوئی یہ ایک طویل کہانی ہے جس کا ’’پرافٹ‘‘ پہلے احاطہ کر چکا ہے۔ جو بات سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت حکومت پاکستان نے اینگرو کو یہ گارنٹی دی تھی کہ وہ اینوین (Enven) پلانٹ کو کم از کم بیس سال تک گیس کی بلا تعطل فراہمی جاری رکھے گا۔ پھر حکومتِ پاکستان نے وہی کیا جو اس نے بار بار کیا ہے۔ یعنی یہ ایک بُری شراکت داری ثابت ہوئی اور وعدہ پورا نہیں کیا۔
یہیں سے معاملات گڑبڑ ہونے لگے۔ اینگرو نے پلانٹ پر فوراً کام شروع کر دیا اور دسمبر 2010ء میں اس سے پیداوار شروع کر دی۔ اس وقت یہ بات واضح ہو گئی کہ حکومت پاکستان ایسے وعدے کر رہی تھی جنہیں پورا کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ملک کو قدرتی گیس کی شدید قلت کا سامنا تھا۔ اور کھاد ساز شعبے کو گیس دینا حکومت کی ترجیح بالکل نہ تھی۔ شہری متوسط طبقے کی گھریلو ضروریات اور برآمدی صنعتوں کو درکار گیس دینے کے بعد کھاد ساز کارخانوں کا نمبر آتا تھا۔
2011ء اور 2012ء میں اینگرو فرٹیلائزرز کے نئے پلانٹ کو گرہن لگ رہا تھا۔ فاروق ترمذی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’زرداری انتظامیہ کے دوران اینگرو انتظامیہ تھکنے لگی۔ میں نے اینگرو میں لوگوں سے بات کی اور انہوں نے مجھے بتایا کہ سی ای او کا 70 فیصد وقت اینوَن پلانٹ کے لیے گیس حاصل کرنے کی کوششوں میں گزرتا تھا۔ وہ کھاد کے کاروبار میں رہنا چاہتے تھے لیکن یہ دردِ سر بنتا جا رہا تھا۔ اور پھر دوسرا مسئلہ تھا، افواہ یہ اڑی کہ اینگرو نے زیادہ تر مقامی بینکوں کے ساتھ لین دین ختم کر کے غیرملکی سرمایہ کاروں سے قرض لینے کیلئے کارپوریٹ بانڈ کا اجراء کیا ہے۔‘‘
2016ء میں اینگرو نے دو بزنس فروخت کر دیے۔ سب سے پہلے اینگرو فوڈز کے 51 فیصد شئیرز ایک ڈچ کمپنی نے 1.14 ڈالر فی شئیر کے حساب سے 44 کروڑ 68 لاکھ 10 ہزار ڈالرز میں خرید لیے جس میں سے 47.1 فیصد شئیرز اینگرو کارپوریشن سے خریدے گئے کیونکہ یہ اینگرو فوڈز کی پیرنٹ کمپنی تھی۔ باقی 3.9 فیصد شئیرز دیگر حصہ داروں سے خریدے گئے۔
فاروق ترمذی کا کہنا ہے کہ ’’اینگرو فوڈز ایک عام مسئلہ سے دوچار ہوا۔ جب بھی کوئی کمپنی پاکستان میں شروع ہوتی ہے تو ان کا یہ تاثر ہوتا ہے کہ پاکستان 22 کروڑ صارفین کا ملک ہے۔ یقیناً یہ بڑی آبادی ہے لیکن لازمی نہیں کہ سبھی آپ کی کمپنی کے ہی گاہک ہوں۔ اینگرو فوڈز کو کاروبار کو پھیلانے کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے ساتھ کمپنی نے اینون پلانٹ کی تعمیر کیلئے قرضہ لینا بھی شروع کر دیا۔‘‘
7 جون 2016ء کو اینگرو نے اعلان کیا کہ وہ اینگرو فرٹیلائزرز کے 28 فیصد شیئرز بیچ رہی ہے جس سے ساڑھے 18 کروڑ ڈالر اکٹھے ہوئے۔ یہ اعلان ان تجزیہ کاروں کے لیے مکمل طور پر حیران کن نہیں تھا جو اینگرو اور اس کے بڑے شیئر ہولڈر حسین داؤد کی پیروی کر رہے تھے جو اینگرو کو توانائی کے کاروبار کی طرف لے جانے کے خواہشمند تھے۔
ابتدائی طور پر کمپنی توانائی میں سرمایہ کاری کی طرف بھی مائل ہوئی لیکن بہت جلد اس نے محسوس کیا کہ انہیں ایک بار پھر وفاقی حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑے جانے کا خطرہ ہے۔ اس سے بچنے کیلئے اینگرو نے دوسرے مواقع کی تلاش شروع کر دی۔