لاہور: موجودہ عالمی اقتصادی مسابقت کے ماحول میں روس کی سربراہی میں سیاسی بلاک کے اندر ’برک‘ (BRIC) کے نام سے ایک نئی بین الاقوامی کرنسی متعارف کرانے کے بارے میں بات چیت ہو رہی ہے جس کا مقصد عالمی تجارتی منڈی میں ڈالر کا استعمال کم کرکے امریکا کے اثر و رسوخ کا توڑ کرنا ہے۔
برکس (BRICS) ممالک میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ’’برکس‘‘ میں شامل ہو کر نئی مجوزہ عالمی کرنسی کا حصہ بنے گا یا اپنے معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے دیگر متبادل اقدامات کا انتخاب کرے گا؟
حالیہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے برکس میں جانے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر پاکستان نے حال ہی میں روسی خام تیل کی خریداری کے لیے تاریخ میں پہلا آرڈر دیا ہے اور یہ کھیپ اگلے ماہ پاکستان پہنچنے کی توقع ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان اور روس کے تیل خریداری معاہدہ کو ایک ’آزاد فیصلہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر ملک کو اپنی توانائی کی ضروریات کے مطابق فیصلہ سازی کا حق حاصل ہے۔ امریکا روس کو تیل کی عالمی منڈی سے باہر نہیں کرنا چاہتا۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ امریکا نہیں چاہتا کہ روسی تیل پیوٹن کے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو۔
پاکستان کو اس وقت خطرناک اقتصادی بحران کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے یہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کو بحال کروانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
امریکی ڈالر اتنا طاقت ور کیوں ہے؟
ایک ماہر معیشت کی رائے میں پاکستان کو اس وقت ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا ہے جو ہمیشہ خسارے کا شکار ہی رہا ہے۔ حالیہ معاشی بحران کے پیش نظر اس بات کا امکان نظر نہیں آ رہا کہ حکومتِ پاکستان ایک نئی عالمی کرنسی والے بلاک میں شامل ہونے کی متحمل ہو سکتی ہے جو ابھی منصوبہ بندی کے مراحل میں ہے اور مزید تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔
معاشی ماہر کے مطابق ’پاکستان کو برکس میں شمولیت سے پہلے اپنے زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے کی ضرورت ہو گی کیونکہ بین الاقوامی سطح پر تجارت کیلئے مجوزہ نئی کرنسی بھی ڈالر دے کر ہی خریدی جا سکے گی۔‘
فارن پالیسی میگزین کی رپورٹ کے مطابق ڈالر کو محدود کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ گزشتہ ماہ نئی دہلی میں ایک روسی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ روس نئی کرنسی کے اجراء کے لیے اپنا قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے تاکہ برکس ممالک آپس میں آزادانہ تجارت کر سکیں۔ اس کے بعد اپنے دورہ چین کے موقع پر برازیل کے صدر لولہ دا سلوا نے بھی اس سے ملتی جلتی رائے کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ ’’تمام ممالک کو اپنی تجارت ڈالر میں ہی کیوں کرنی چاہیے؟‘‘
1960 کی دہائی سے عالمی تجارت میں امریکی ڈالر کو ختم کرنے کی خواہش کے بارے میں دنیا بھر میں بات ہوتی رہی ہے تاہم معاملہ بات چیت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ ذرائع کے مطابق فی الحال بین الاقوامی تجارت میں 84.3 فیصد ڈالر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے برعکس چینی یوآن کا استعمال صرف 4.5 فیصد ہے۔
اگر اس ساری صورت حال کا اقتصادی نکتہ نظر سے تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ برکس کی جاری کردہ کرنسی کی یقینی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں حالانکہ اس کے لیے ابتدائی سطح کا کام ہو چکا ہے اور منصوبے کو عملی صورت میں ڈھالنے بارے ٹھوس بنیادیں موجود ہیں۔ یہ کرنسی ممکنہ طور پر امریکی ڈالر کو برکس رکن ممالک میں ریزرو کرنسی کے طور پر چیلنج کر سکتی ہے۔ ڈیجیٹل یوآن جیسے ماضی کے حریفوں کے برعکس، بہرحال یہ مجوزہ کرنسی کم از کم ڈالر کی اجارہ دارانہ پوزیشن کو کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
برکس گروپ کی 15ویں سربراہی کانفرنس اگست 2023ء میں جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں ہو گی۔ جہاں اس حوالے سے بات چیت سے بڑھ کر عملی اقدامات متوقع ہیں۔