پیٹرولیم ڈیلرز کو عدم ادائیگی کا خوف، پٹرول سبسڈی منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی ناکام ہونے کا خدشہ

326
KSA extends $1.2b deferred oil payment facility till Feb 2024

اسلام آباد: موٹر سائیکلوں اور چھوٹی گاڑیوں کے مالکان کو رعایتی نرخوں پر پٹرول فراہم کرنے کا مجوزہ حکومتی منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی ناکامی کے خطرے سے دوچار ہو گیا ہے کیونکہ پیٹرولیم ڈیلرز بر وقت ادائیگیاں نہ ہونے کے خوف کی وجہ سے اس منصوبے کا حصہ بننے سے ہچکچا رہے ہیں۔

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے اعلان کیا تھا کہ حکومت کی فیول سبسڈی کی حکمت عملی کے تحت لگژری کاروں کے مالکان سے فی لیٹر 50 روپے اضافی وصول کیے جائیں گے جبکہ موٹر سائیکلوں اور چھوٹی کاروں کو 50 روپے فی لیٹر سستا پٹرول فراہم کیا جائے گا۔ اس پورے عمل کی انجام دہی کیلئے پیٹرولیم ڈیلرز ایجنٹ کا کردار ادا کریں گے جو موٹر سائیکلوں اور چھوٹی کاروں کو رعایتی نرخوں پر پٹرول فراہم کریں گے۔

ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) بھی اِس عمل میں شامل ہو گا کیونکہ بینک سے وَن ٹائم پاس ورڈ (او ٹی پی) ملنے کے بعد ہی سبسڈی کے حق دار افراد کو سستا پٹرول مل سکے گا تاہم پیٹرولیم ڈیلرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ممکنہ طور پر بینک انہیں رقم کی بروقت ادائیگی نہیں کر سکے گا۔ اس لیے وہ سبسڈی پروگرام کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں جو کہ آخر کار ان (ڈیلرز) پر مالی بوجھ بن سکتا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ  دیگر عوامل بھی سبسڈی پروگرام کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اس سکیم کے لیے نیشنل بینک آف پاکستان  موٹر بائیکس اور چھوٹی کاروں کے مالکان کو اوٹی پی جاری کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع  کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں بینک کو ایکسائز رجسٹریشن دفاتر سے ڈیٹا جمع کرنے کی ضرورت ہے مگر ذرائع کے مطابق ملک میں موٹر سائیکلوں کی کل تعداد میں سے نصف رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔

نادرا بھی موٹر سائیکلوں اور چھوٹی کاروں کے مالکان کے ڈیٹا کی فراہمی کے پروگرام میں شامل ہو گا۔ ذرائع کے مطابق اس عمل میں تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان معاہدے کیے جائیں گے جس میں تقریباً چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ کراس سبسڈی کے اس پورے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے دوران ایک اور چیلنج درپیش تھا کہ وہ یہ کہ حکومت ہر ماہ ہر موٹر سائیکل کو 25 لیٹر پٹرول فراہم کرنا چاہتی تھی جبکہ موٹر سائیکل مالکان کی کھپت کی سطح مختلف تھی۔

اوسطاً، رکشہ مالکان اور موٹر سائیکل استعمال کرنے والے ہر ماہ 25 لیٹر سے زیادہ پیٹرول استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین پوچھتے ہیں کہ اگر مہینے کے پہلے چند دنوں میں ہی سبسڈی والا پٹرول استعمال کر لیا جائے تو باقی مدت کے لیے کیا طریقہ کار ہو گا۔

یہ سبسڈی پلان پر عمل درآمد کی راہ میں حائل رکاوٹیں تھیں جنہیں پیٹرولیم ڈویژن اَب تک دور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کابینہ کے ارکان بھی کراس سبسڈی کے حوالے سے ایک صفحے پر نہیں تھے۔

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم نے سستے پیٹرول کی فراہمی کا اعلان کیا تو کابینہ کے ایک رکن نے دلیل دی کہ کابینہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ اگرچہ وزیراعظم نے کراس سبسڈی پروگرام بنانے کی ہدایات دیں لیکن کابینہ کے ارکان بھی اس حوالے سے یک زبان نہیں تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ ماضی میں ایسے مواقع پر تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینے کی روایت تھب لیکن اَب اس روایت کو ترک کر دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کئی چیلنجز ابھر رہے تھے جو ایندھن کی سبسڈی کو حتمی شکل دینے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔

ایک اندازے کے مطابق موٹر سائیکل سواروں کو سستا پٹرول فراہم کرنے کیلئے کُل 120 ارب روپے درکار ہوں گے اور مہنگی گاڑیوں کے مالکان سے زیادہ قیمتیں مانگ کر پیسے اکٹھے کیے جائیں گے۔ اس سے قبل یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ ایندھن پر سبسڈی صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ موٹر سائیکل مالکان کو دی جائے۔

اس سوچ کو بھی زیادہ حمایت نہیں مل سکی کیونکہ بہت سے موٹر سائیکل مالکان کے پاس بینکوں تک ڈیجیٹل رسائی نہیں ہے اور نہ ہی وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں جس سے پالیسی سازوں میں تشویش پائی جاتی ہے اور وہ اس منصوبے کی کامیابی پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here