نوکری کو لات ماریں۔ ایمازون سیکھیں اور گھر بیٹھے ڈالروں میں کھیلیں۔
سوشل میڈیا پر ایسے کیپشن والی ویڈیوز اکثر آپ نے دیکھی ہوں گی اور جی للچایا ہو گا کہ یہ ویڈیو والا بھائی ڈالر کما رہا ہے تو میں کیوں نہیں۔
آج ہم بھی ایمازون پر ہی بات کریں گے لیکن اس سے ڈالر کمانے کے طریقے نہیں بلکہ یہ بتائیں گے کہ کتابیں بیچنے سے شروع ہونے والی ایمازون دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی کیسے بنی۔
کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ 1969ء میں ایجاد ہوا لیکن ٹرانسفر کنٹرول پروٹول یا انٹر نیٹورک پروٹول یعنی جسے آپ ’آئی پی‘ کہتے ہیں، وہ یکم جنوری 1983ء کو متعارف ہوا جس کی وجہ سے یہ عام آدمی کے استعمال میں آیا اور مہنگا ہونے کے باوجود تیزی سے مقبول ہونے لگا۔
مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 1993ء میں انٹرنیٹ کی ترقی کی شرح دو ہزار فیصد سے زائد رہی۔
یہی بات جب امریکا کی ایک ملٹی نیشنل انویسٹمنٹ مینجمنٹ کمپنی ڈی ای شا اینڈ کو (D.E Shaw & Co) کے تیس سالہ نائب صدر جیفری پرسٹن بیزوس کو ایک مضمون پڑھ کر معلوم ہوئی تو اس کے انجنئیر دماغ نے انٹرنیٹ کو کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے طریقے سوچنا شروع کر دئیے۔
اُس نے اپنی کمپنی میں ساتھی ملازمہ میکینزی سکاٹ کے ساتھ مشورہ کیا۔ دونوں نے ڈی ای شا کی نوکری چھوڑی۔ واشنگٹن میں ایک گیراج کرائے پر لیا۔ کچھ کتابیں خریدیں اور 5 جولائی 1994ء کو آن لائن کتابیں بیچنے کی کمپنی شروع کر دی جس کا نام رکھا گیا کیڈیبرا (Cadabra )
جلد ہی کمپنی کا نام بدل کر ایمازون رکھ دیا گیا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔
پہلی وجہ یہ تھی کہ بیزوس نے یہ نام دنیا کے دوسرے بڑے اور جنوبی امریکا کے سب سے بڑے دریائے ایمازون کے نام پر رکھا اور ان کا خیال تھا کہ ان کا آن لائن بک سٹور بھی ایک دن دنیا کا سب سے بڑا سٹور بنے گا۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ ایمازون کا نام انگریزی حروف تہجی میں کے پہلے حرف ’اے‘ سے شروع ہوتا تھا۔ بیزوس کا خیال تھا کہ ’اے‘ سے شروع ہونے والے ناموں والی ویب سائٹس انٹرنیٹ کی درجہ بندی میں اوپر آتی ہیں۔
ایمازون ڈاٹ کام میں تین لاکھ ڈالر کی پہلی سرمایہ کاری جیف بیزوس کے والدین نے کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس زمانے میں بیزوس کچھ ایسے پُر اُمید نہ تھے اور ہر سرمایہ کار کو یہی کہتے تھے کہ 70 فیصد امکان ہے کہ جلد یا بدیر اُن کی کمپنی دیوالیہ ہو جائے گی یا پھر مکمل بند کرنا پڑے گی۔
انہی دنوں کاروباری خبریں دینے والے اکثر صحافیوں نے ایمازون کی کاروباری حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ بارڈرز (Borders) اور بارنس اینڈ نوبل (Barnes & Noble) جیسے بڑے پبلشرز اور بُک سیلرز کے ہوتے ہوئے ایمازون کا آن لائن کتابیں بیچنے کا دھندہ چند ہی سالوں میں ٹھپ پڑ جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
گوگل: یونیورسٹی ہوسٹل سے دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن اور ٹریلین ڈالر کمپنی بننے تک
آرامکو: ایک کمپنی جس نے سعودی عرب کی قسمت بدل دی
نوڈلز بیچنے سے 300 ارب ڈالر کی کمپنی تک سام سنگ کا سفر
صرف ایک بھارتی کمپنی کی آمدن پاکستان کی مجموعی برآمدات کے آدھے سے بھی زیادہ
لیکن جیف بیزوس کا اصرار تھا کہ صحافیوں کو انٹرنیٹ کی تیز رفتار ترقی کا ادراک نہیں، وہ کہتے تھے کہ ایمازون کتابوں کا آن لائن سٹور نہیں بلکہ ایک ٹیکنالوجی کمپنی بنے گی۔
ایمازون کا وعدہ تھا کہ ہر پڑھنے والے تک، چاہے وہ جہاں بھی ہو، کتاب ضرور پہنچنی چاہیے۔
تنقید سے قطع نظر محض ایک سال میں ایمازون نے مقبولیت میں کئی بڑے اور پرانے بُک سیلرز کو پیچھے چھوڑ دیا کیونکہ لوگوں کو گھر بیٹھے کتابیں مل رہی تھیں۔ دسمبر 1996ء تک ایمازون ڈاٹ کام پر ایک لاکھ 80 ہزار اکائونٹس بن چکے تھے اور یہ تعداد اکتوبر 1997ء میں دس لاکھ ہو گئی۔
1996ء میں ایمازون کی مجموعی آمدن ایک کروڑ 57 لاکھ ڈالر تھی جو 1997ء میں 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالر اور 1998ء میں 61 کروڑ ڈالر تک جا پہنچی۔
ترقی کی اس رفتار کو برقرار رکھنے اور کاروبار کو وسیع کرنے کیلئے ایمازون کو پیسے کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کیلئے مئی 1997ء میں ابتدائی عوامی پیشکش (آئی پی او) رکھی گئی جس سے تقریباََ ساڑھے پانچ کروڑ ڈالر اکٹھا ہوئے اور ایمازون پبلک کمپنی بن گئی۔
ابتدائی عوامی پیشکش کے بعد محض ایک سال میں ایمازون نے برطانیہ کی بُک پیجز، جرمن ٹیلی بُک، فلموں کا ڈیٹا بیس رکھنے والی آئی ایم ڈی بی سمیت پانچ کمپنیوں کو خرید لیا۔
اس ترقی کو دیکھ کر 1999 میں ٹائم میگزین نے جیف بیزوس کو ’پرسن آف دی ائیر‘ قرار دے دیا۔
1998ء میں ایمازون نے کاروبار کو مزید وسعت دیتے ہوئے آڈیو ویڈیوز پروڈکٹس بھی بیچنا شروع کر دیں اور اگلے سال یعنی 1999ء میں برقی آلات، ویڈیو گیمز، سافٹ وئیرز، کھلونے اور گھریلو آلات فروخت کرنا شروع کر دیے۔
سن 2000ء میں ایسوسی ایٹ پروگرام کے ذریعے چھوٹی ویب سائٹس، کمپنیوں اور افراد کو کمیشن کے بدلے ایمازون پر اپنی مصنوعات بیچنے کی اجازت مل گئی۔
سن 2000ء میں ہی ڈاٹ کام برسٹ کی وجہ سے ایمازون کی خریدی گئی اکثر کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں اور ایمازون کے حصص بھی کم ترین سطح تک گر گئے۔
2002ء میں ایمازون ویب سروسز (AWS) کا آغاز ہوا اور ابتدائی طور پر انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی کے علاوہ، ڈویلپرز اور مارکیٹکنگ سے متعلقہ کمپنیوں اور افراد کو ڈیٹا فراہم کرنا شروع کیا گیا۔
سن 2002ء کے اواخر میں ایک بار پھر بھاری اخراجات کی وجہ سے ایمازون تقریباََ دیوالیہ ہو گئی۔ اس کے ڈسٹری بیوشن سینٹرز بند ہو گئے اور 14 فیصد ملازمین کام چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے۔
مالی حالات بہتر ہونے میں ایک سال لگ گیا اور 2003ء کے اختتام پر کمپنی کو 40 کروڑ ڈالر منافع ہوا۔
جیف بیزوس کو احساس تھا کہ کروڑوں انٹرنیٹ صارفین کیلئے ڈیٹا سٹوریج چاہیے۔ 2006ء میں انہوں نے ایمازون ویب سروسز کو وسعت دے کر ایلاسٹک کمپیوٹ کلائوڈ (ec2) اور سِمپل سٹوریج سروس (S3) متعارف کروائی۔ یہ دونوں سروسز آتے ہی مقبول ہو گئیں۔ ایک سال میں اِن سروسز پر ڈیٹا فائلز کی تعداد دس ارب تک جا پہنچی جبکہ چھ سال بعد 2012ء میں 905 ارب ہو گئی۔ نیٹ فلکس بھی اپنی ویڈیو سٹریمنگ کیلئے ایمازون کی یہی سروسز استعمال کرتا ہے۔
2007ء میں ایمازون نے کِنڈل ای ریڈرز (Kindle) متعارف کروایا جس نے آن لائن کتابیں پڑھنے فروخت کرنے کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔
1994ء میں جب ایمازون شروع ہوئی تھی تو بُک سیلرز اور پبلشرز خوش تھے کہ چلو پرانا سٹاک آن لائن نکل جائے گا لیکن کنڈل آئی تو ایمازون اور پبلشنگ انڈسٹری کے درمیان قیمتوں کو لے کر تنازع پیدا ہو گیا کیونکہ چھپی ہوئی کتاب کی قیمت کئی سو ڈالر تھی اور کنڈل پر وہی ای بُک کم از کم قیمت میں دستیاب تھی۔ کئی پبلشرز نے ایمازون کے پلیٹ فارم پر کتابیں لگانا بند کر دیں۔
یہ تنازع 2010ء تک چلا اور بالآخر ایمازون کی جانب سے قیمتوں کے تعین کا اختیار پبلشرز کو دینے پر ختم ہوا۔
2013ء میں ایمازون ویب سروسز کو امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (CIA) سے چھ سو ملین ڈالر کا ایک ٹھیکہ ملا۔ اسی سال ایمازون آن لائن شاپنگ کیلئے دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ پلیس بن گئی۔
2017ء میں ایمازون نے ’ہول فوڈز مارکیٹ‘ نامی کمپنی کو 13.7 ارب ڈالر میں خرید لیا۔ 1998ء سے 2022ء تک ایمازون نے 115 چھوٹی بڑی کمپنیاں مکمل طور پر خرید لیں جبکہ 23 کمپنیوں کے حصص خرید لیے۔
ملازمین کی تعداد کے لحاظ سے یہ وال مارٹ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی کمپنی ہے اور اس کے ملازمین کی تعداد 16 لاکھ سے زائد ہے۔
ایمازون کے بانی جیف بیزوس 2017ء سے 2021ء تک مسلسل چار سال دنیا کے امیر ترین آدمی رہے۔
2022ء میں فوربز کی شائع کردہ دنیا کی بہترین روزگار فراہم کرنے والی کمپنیوں کی فہرست میں ایمازون چودہویں، دنیا کی بہترین دو ہزار کمپنیوں میں چھٹی، سب سے زیادہ مالیت والی بین الاقوامی کمپنیوں میں چوتھی اور جدت کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں بہترین کمپنی قرار پائی۔
سال 2022ء کے اختتام پر ایمازون کی کل آمدن 469 ارب ڈالر، اثاثوں کی مالیت 420 ارب ڈالر، سالانہ منافع 33.4 ارب ڈالر اور کمپنی کی مجموعی مالیت 1.46 کھرب ڈالر رہی۔