آرامکو: ایک کمپنی جس نے سعودی عرب کی قسمت بدل دی

1687

آج سے تقریباََ 85 سال قبل 4 مارچ 1938ء کو امریکی جیالوجسٹ میکس سٹینک (Max Steineke) نے ایک عرب بدُو خُمَیس بن رمضان کی مدد سے سعودی سر زمین پر تیل کا پہلا ذخیرہ دریافت کیا۔ اس دریافت نے آگے چل کر سعودی عرب کی قسمت بدل کر رکھ دی اور آج اس کا شمار دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں میں ہوتا ہے۔

ہمارا موضوع سعودی عرب کی تاریخ ہے اور نا اس کی معیشت۔ بلکہ ہم اُس کمپنی کی بات کریں گے جو سعودی عرب میں تیل کی پہلی دریافت کے ساتھ قائم ہوئی اور آج ٹریلین ڈالر مالیت کی عالمی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ 14 جنوری کو اس کی رئیل ٹائم مارکیٹ ویلیو تقریباََ 2.29 کھرب ڈالر تھی۔ یہ کمپنی ہے سعودی آرامکو۔

پہلی جنگِ عظیم کے بعد مشکل ترین مرحلہ تب آیا جب عرب کے تیل والے علاقوں کی تقسیم ہونا تھی۔ اُن علاقوں میں کچھ عثمانی سلطان کی آشیر باد اور کچھ نوآبادیاتی قبضہ گیروں کی مدد سے برطانوی، امریکی، ڈچ اور جرمن کمپنیاں 1910ء سے تیل تلاش کر رہی تھیں۔

جنگ ختم ہوئی تو عثمانی سلطان رہا نا اس کی سلطنت۔ اَب علاقے کا واحد جاگیر دار برطانیہ تھا۔ 1920ء میں سان ریمو پٹرولیم ایگریمنٹ ہوا تو برطانیہ اور فرانس نے میسو پوٹیمیا کے تیل والے علاقوں سے امریکی کمپنیوں کو نکال دیا۔

سٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا (SoCal) بھی اُن کمپنیوں میں سے ایک تھی لیکن امریکا کی اوپن ڈور ڈپلومیسی کی پالیسی کام آئی۔ سٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا نے بحرین میں تیل کی تلاش شروع کر دی اور 30 مئی 1932ء کو تیل کا ذخیرہ دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

یہ دیکھ کر 1933ء میں سعودی فرمانروا شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن السعود نے بھی سٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا کو سعودی سرزمین پر تیل تلاش کرنے کی اجازت دے دی اور اخراجات کیلئے شاہی خزانے سے ایک گرانٹ بھی جاری کر دی۔

اجازت ملنے کے بعد تیل کی تلاش کیلئے سٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا نے کیلی فورنیا عریبین سٹینڈرڈ آئل (CASOC) کے نام سے ایک ذیلی کمپنی قائم کی جس نے صحرا میں ڈرلنگ شروع کر دی لیکن چار سال کی ان تھک کوششوں کے باوجود تیل کی ایک بوند بھی نہ مل سکی۔

تیل کی تلاش میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہونے پر سٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا نے 1936ء میں گرانٹ کا پچاس فیصد ٹیکساس آئل کمپنی (Texaco) کو دے دیا۔

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان روس سے تیل کیوں نہیں خرید پا رہا؟

روس تو دور ہے مگر پاکستان اپنے ہمسائے ایران سے سستا تیل کیوں نہیں خریدتا؟ 

اَب دونوں کمپنیاں باہمی اشتراک سے سعودی عرب کے وسیع و عریض صحرا اور ساحلی علاقوں میں تیل تلاش کرنے لگیں۔ بالآخر 4 مارچ 1938ء کو ظُہران (Dhahran) کے صحرائی علاقے میں ساتویں کوشش پر تیل مل گیا۔ اس کنوئیں کا نام ’دمام 7‘ رکھا گیا۔

سات مختلف مقامات پر ڈرلنگ کے بعد تیل تو مل گیا لیکن چار سالوں کی ناکامیوں اور بے بہا اخراجات کی وجہ سے سٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا اور ٹیکساس آئل کمپنی تلاش کا عمل مزید جاری رکھنے پر آمادہ نہیں تھیں۔ اُن کے انجنیئرز مایوس تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ حدِ نگاہ سے آگے تک وسیع صحرا میں ریت کے ٹیلوں کے نیچے بھی ریت ہو گی، یہاں تیل کہاں سے آیا۔

لیکن دمام سیون نامی کنوئیں سے جب روزانہ 15 سو بیرل تیل نکلنے لگا تو دونوں کمپنیاں مزید جگہوں پر ڈرلنگ کے لیے آمادہ ہو گئیں۔

31 جنوری 1944ء کو کیلی فورنیا عریبین سٹینڈرڈ آئل کمپنی کا نام بدل کر عریبین امریکن آئل کمپنی (Aramco) رکھ دیا گیا اور مختصراََ اسے آرامکو ہی کہا جانے لگا۔

1948ء میں دو امریکی کمپنیوں سٹینڈرڈ آئل آف نیو جرسی اور سُوکنی ویکیوم (Soocny Vaccum) نے دس فیصد خرید لیا جبکہ سٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا اور ٹیکساس آئل کمپنی تیس تیس فیصد کی حصہ دار رہ گئیں۔

سٹینڈرڈ آئل آف نیو جرسی بعد میں ایگزون بن گئی اور سوکنی ویکیوم موبل بن گئی۔ بعد کے سالوں میں دونوں کمپنیاں آج کی ایگزون موبل میں بدل گئیں۔

1949ء تک آرامکو کی خام تیل کی فی دن پیداوار پانچ لاکھ بیرل تک پہنچ گئی۔ پچاس کی دہائی سعودی عرب اور آرامکو کی تاریخ میں انقلابی تبدیلیاں لے کر آئی۔ 1950ء میں آرامکو نے ایک ہزار دو سو بارہ کلومیٹر طویل ٹرانس عریبین پائپ لائن مکمل کی جس سے سعودی تیل کو یورپی منڈی تک تیز ترین رسائی مل گئی۔

اب تک آرامکو کا پورا منافع اس کی مالک اور حصہ دار کمپنیوں کو مل رہا تھا لیکن 1950ء میں شاہ عبدالعزیز نے آرامکو اور اس کے تیل کے ذخائر کو قومیانے کی دھمکی دے دی جس کے بعد طے پایا کہ پچاس فیصد منافع سعودی حکومت کو ملے گا۔

دراصل شاہ عبدالعزیز وینزویلا کے پابلو الفانسو سے متاثر ہوئے تھے جنہوں نے اپنے ملک میں نیو جرسی سٹیڈرڈ آئل اور رائل ڈچ شیل کو پچاس فیصد منافع حکومت کو دینے پر مجبور کیا تھا۔

اپنی کمپنیوں کے اس نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے امریکی صدر ہیری ٹرومین کو تیل پر محصولات کے حوالے سے مراعات کا اعلان کرنا پڑا۔

اس دوران آرامکو نے بحیرہ عرب میں بھی ڈرلنگ کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ 1951ء میں سفانیا آئل فیلڈ میں سینتیس ہزار ملین بیرل تیل کا ذخیرہ ملا جو اُس وقت ناصرف سعودی عرب بلکہ دنیا میں تیل کے سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔

لیکن چھ سال بعد 1957ء میں گاور آئل فیلڈ میں دنیا کا سب سے بڑا تیل کا ذخیرہ دریافت ہوا جس کیلئے 1940ء سے کام جاری تھا۔ اِن ذخائر کا تخمینہ اڑتالیس ہزار ملین بیرل لگایا گیا۔ دراصل یہ دنیا میں تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ اَب تک سعودی عرب کا ساٹھ فیصد تیل بتیس ہزار مربع میل پر محیط گاور آئل فیلڈ سے ہی آتا ہے۔

1958ء میں آرامکو کی خام تیل کی سالانہ پیداوار دس لاکھ بیرل تک جا پہنچی اور سن 62ء میں اس نے اپنے قیام کے تقریباََ تیس سالوں میں پانچ ارب بیرل مجموعی پیداوار کا سنگِ میل عبور کر لیا۔

6 اکتوبر 1973ء کو عرب اسرائیل جنگ شروع چھڑی اور امریکا نے کُھلم کھلا اسرائیل کی مدد کی تو سعودی عرب کو شائد پہلی بار احساس ہوا کہ اس کا سارا تیل امریکی کمپنیوں کے زیر انتظام ہے اور تیل کو تذویراتی اثاثے کے طور پر استعمال کرنے کیلئے یہ انتظام واپس لینا نہایت ضروری ہے۔

1973ء میں شاہ فیصل نے آرامکو کا پچیس فیصد خرید لیا۔ دراصل یہ تب کسی سٹاک مارکیٹ کا حصہ نہیں تھی۔ اس لیے جو حصہ شاہ فیصل کی حکومت نے امریکی کمپنیوں سے خریدا اُسے شمولیتی دلچسپی (participation interest) کا نام دیا گیا۔

اگلے سال 1974ء میں سعودی حکومت نے آرامکو کا مزید پینتیس فیصد خرید کر اپنا مجموعی حصہ ساٹھ فیصد تک بڑھا لیا اور دو سال بعد یعنی 1976ء بقیہ چالیس فیصد بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یوں آرامکو کی ملکیت تو سعودی حکومت کے پاس چلی گئی لیکن اسے چلانے کیلئے جس تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت تھی وہ سعودی عرب کے پاس نہ تھی۔ اس لیے طے پایا کہ کمپنی کی ملکیت حکومت کے پاس رہے گی تاہم انتظامی امور سمیت تمام معاملات امریکی کمپنیاں جوں کا توں چلاتی رہیں گی۔

یہ سلسلہ اگلے آٹھ سالوں تک ایسے ہی چلا۔ بالآخر نومبر 1988ء میں حکومت نے شاہی فرمان کے ذریعے کمپنی کا نام عریبین امریکن آئل کمپنی سے بدل کر سعودی عریبین آئل کمپنی رکھ دیا جسے آج سعودی آرامکو کہا جاتا ہے۔

اَب کی بار کمپنی کے صرف نام سے ہی لفظ ’امریکن‘ نہیں نکالا گیا بلکہ سابق آرامکو اور امریکی کمپنیوں سے تمام آئل فیلڈز اور اثاثوں کا سارا کنٹرول بھی سعودی آرامکو کے پاس چلا گیا۔ علی بن ابراہیم النعیمی پہلے سعودی شہری تھے جنہیں آرامکو کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

اسّی کی دہائی کے اواخر اور نوے کی دہائی کے شروع میں سعودی آرامکو کو تیل کی پیدا اور برآمد کنندہ سے بین الاقوامی سطح کی منظم پٹرولیم انٹرپرائز میں بدلنا شروع کیا گیا۔

نوے کی دہائی میں ہی چین، کوریا اور فلپائن کے ساتھ معاہدوں کے بعد آرامکو کا ستر فیصد تیل ایشیا میں فروخت ہونے لگا۔ 1991ء میں سعودی آرامکو جنوبی کوریا کی سانگ یانگ آئل ریفائنگ کمپنی میں پینتیس فیصد، 94ء میں فلپائن کی پیٹرن کارپوریشن میں چالیس فیصد اور 96ء میں یونان کی کورنتھ ریفائنریز (Corinth Refineries) میں پچاس فیصد مالکانہ حقوق حاصل کر لیے۔

2000ء میں آرامکو نے ظہران میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر قائم کیا اور اس کا الحاق دنیا بھر کے بہترین ریسرچ انسٹی ٹیوٹس کے ساتھ کر دیا گیا تاکہ اس شعبے میں تحقیق کیلئے سائنسدان پیدا کیے جا سکیں۔

2005ء میں آرامکو نے تیل کی پیداوار 12.5 ملین بیرل فی دن تک بڑھانے اور خام تیل کو صاف کر کے پٹرول، ڈیزل اور دیگر مصنوعات میں تبدیل کرنے کی اپنی صلاحیت کو دُگنا کرنے کیلئے پچاس ارب ڈالر کے پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا۔ تب تک یہ 781 ارب ڈالر مالیت کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن چکی تھی۔

جنوری 2016ء میں ولی عہد محمد بن سلمان نے آرامکو کے پانچ فیصد حصص کی فروخت اور ان کی آمدن سے ایک خودمختار ویلتھ فنڈ بنانے کا اعلان کیا۔

14 ستمبر 2019ء کو حوثی باغیوں نے آرامکو کے دو پلانٹس پر ڈرون حملہ کیا تو دنیا کو پانچ فیصد تیل کی سپلائی معطل ہو گئی اور اُسی سال ہونے والی آرامکو کی پہلی ابتدائی عوامی پیشکش (IPO) بھی کھٹائی میں پڑنے کی باتیں ہونے لگیں۔

تاہم 4 دسمبر 2019 کو سعودی سٹاک ایکسچینج تداوال پر ایک اعشاریہ پانچ فیصد حصص کی فروخت سے آرامکو نے پچیس ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کمائے۔ اس کے ایک حصص کی قیمت آٹھ اعشایہ ترِیپّن امریکی ڈالر قرار پائی۔ یہ دنیا کی مہنگی ترین ابتدائی عوامی پیشکش تھی جس نے چین کی علی بابا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

اس ابتدائی عوامی پیشکش کے ایک ہفتے بعد آرامکو کے حصص کی قیمت دس فیصد بڑھ گئی اور ایک کھرب اٹھاسی ارب ڈالر مالیت کے ساتھ یہ دنیا کی سب سے بیش قیمت کمپنی بن گئی جو کسی سٹاک مارکیٹ کا حصہ تھی۔ یہ اعزاز 31 جولائی 2020ء تک قائم رہا جب ایپل آرامکو سے آگے نکل گئی۔

21 مارچ 2021ء کو سعودی آرامکو نے چین کے ساتھ آئندہ پچاس سالوں تک تیل اور گیس فراہمی کا معاہدہ کیا۔

اِس وقت اندرون ملک آرامکو کی ملکیت چھ ریفائنریاں کام کر رہی ہیں۔ پانچ مقامی ریفائنریوں کے علاوہ بیرون ملک چھ ریفائنریوں کے ساتھ اس کا اشتراک ہے جن میں بھارت کی ریلائنس انڈسٹریز بھی شامل ہے۔

سعودی آرامکو نے پاکستان کے ساحلی شہر گوادر میں بھی دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ریفائنری لگانے کا عندیہ دیا تھا تاہم بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ منصوبہ منسوخ کر دیا گیا۔

سعودی عرب کے پاس دنیا میں دریافت شدہ تیل کے سترہ فیصد ذخائر ہیں جن کا تخمینہ 270 ارب بیرل لگایا گیا ہے اور یہ سارا تیل سعودی آرامکو کے زیر انتظام ہے۔

تقریباََ اڑسٹھ ہزار ملازمین کی حامل یہ کمپنی گزشتہ سال دنیا کی چھیالیسویں بہترین کمپنی قرار پائی۔ فوربز میگزین کے مطابق 2022ء میں آرامکو کی مجموعی آمدن چار سو ارب ڈالر اور منافع ایک سو پانچ ارب ڈالر تھا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here