ایک غلطی جو گوگل کو 100 ارب ڈالر میں پڑی

808
The hiccup that cost Google $100 billion

جب سے چیٹ جی پی ٹی نامی مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹ متعارف ہوا ہے ہر جگہ یہی بحث ہو رہی ہے کہ اب شائد گوگل کا زمانہ گیا۔

اس بحث میں مزید شدت اُس وقت آئی جب 6 فروری 2023ء کو گوگل نے چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں اپنا چیٹ بوٹ ’بارڈ‘ متعارف کروایا جس پر گزشتہ دو سالوں سے کام جاری تھا۔

لیکن ’بارڈ‘ کی ایک غلطی کی وجہ سے گوگل کی مالک کمپنی ایلفابیٹ کو تقریباََ سو ارب ڈالر سے زائد نقصان اٹھانا پڑا۔

ہوا کچھ یوں کہ نومبر 2022ء میں امریکی ٹیک کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کے بانی سام آلٹمین نے ایک چیٹ بوٹ متعارف کرایا جس کا نام رکھا گیا ’چیٹ جی پی ٹی‘۔

چیٹ جی پی ٹی دراصل مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر بنائے گئے سافٹ ویئرز میں تازہ ترین اضافہ ہے جسے کمپنی کی جانب سے جنریٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفارمر (Generative Pre-trained Transformer) یا جی پی ٹی کہا جا رہا ہے۔

’چیٹ جی پی ٹی‘ سے اگر آپ کوئی بھی سوال پوچھیں تو یہ آپ کو ایک مفصل جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

آپ اس سے کوئی نظم لکھوائیں، یونیورسٹی کی اسائنمنٹ بنوائیں، یا دنیا کے کسی موضوع پر مضمون لکھوائیں، یہ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ تاہم کمپنی کا کہنا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کے تمام جوابات درست نہیں ہو سکتے اور بہتری کا کام جاری ہے۔

اس چیٹ بوٹ نے آتے ہی مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور یہ بحث شروع ہو گئی کہ یہ شائد گوگل کی اجارہ داری کو ختم کر دے گا۔

اس بحث میں تیزی اُس وقت آئی جب جنوری میں مائیکروسافٹ نے چیٹ جی پی ٹی میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے اور اس کے 49 فیصد حصص خریدنے کا اعلان کر دیا۔ مائیکروسافٹ گوگل سرچ کی حریف سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس کا بھی اپنا ایک سرچ انجن بِنگ (Bing) ہے۔

مائیکروسافٹ کی جانب سے چیٹ جی پی ٹی کو بہ ظاہر خریدنے کے بعد ٹیکنالوجی انڈسٹری میں پیسہ لگانے والے سرمایہ کاروں کی نظریں گوگل پر تھیں کہ وہ کیا جواب دیتی ہے۔

گوگل بھی ایک عرصے سے مصنوعی ذہانت پر کام کر رہی ہے اور اس نے 2021ء میں ’لینگوئج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی کیشنز‘ یعنی لیمڈا (LaMDA) شروع کیا تھا تاکہ گوگل ایپس کو مصنوعی ذہانت کے ساتھ منسلک کیا جا سکے۔ اس کی جانب سے ’چیٹ جی پی ٹی‘ طرز کا ایک چیٹ بوٹ لانے کی تیاری بھی جاری تھی۔

گزشتہ ہفتے جب مائیکروسافٹ نے اعلان کیا کہ وہ ’چیٹ جی پی ٹی‘ کو اپنے سرچ انجن بنگ کے ساتھ منسلک کر رہی ہے تاکہ بنگ پر تلاش کے نتائج کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے مزید مستند بنایا جا سکے۔

تب گوگل کے کرتا دھرتائوں کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے مائیکروسافٹ کے جواب میں اپنا چیٹ بوٹ آزمائشی بنیادوں پر فوری متعارف کرانے کا اعلان کر دیا جس کا نام رکھا گیا ہے ’بارڈٗ‘ (Bard)

بارڈ کا پہلا عوامی ٹیسٹ 6 جنوری 2023ء کو پیرس میں گوگل کی جانب سے منعقد کردہ ایک تقریب میں کیا گیا۔ اس دوران گوگل سرچ کے سربراہ پربھاکر راگھوان نے گوگل میپس سمیت کمپنی کی دیگر سروسز میں ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کیا اور بارڈ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ بھی دی۔

یہ بھی پڑھیے: 

گوگل: یونیورسٹی ہوسٹل سے دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن اور ٹریلین ڈالر کمپنی بننے تک

آرامکو: ایک کمپنی جس نے سعودی عرب کی قسمت بدل دی

نوڈلز بیچنے سے 300 ارب ڈالر کی کمپنی تک سام سنگ کا سفر

صرف ایک بھارتی کمپنی کی آمدن پاکستان کی مجموعی برآمدات کے آدھے سے بھی زیادہ

اس تقریب سے قبل ایلفابیٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) سندر پچائی نے گوگل پر اطلاع دی کہ ’مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹ بارڈ کو انتہائی پیچیدہ موضوعات کو سادہ بنا کر کے پیش کرنے کیلئے  ’لیمڈا‘ پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔

گوگل نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بارڈ کی ایک مختصر ویڈیو (GIF) جاری کی جس میں ’بارڈ‘ کو مختلف سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے تاہم چیٹ بوٹ نے ایک سوال کا غلط جواب پیش کر کے کمپنی کو مشکل میں ڈال دیا۔

جِف ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بارڈ سے جب سوال پوچھا گیا کہ ’ناسا کی جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کے ذریعے اور کیا نیا دریافت کیا گیا ہے جو ایک نو سالہ بچے کو بتایا جائے؟‘

بارڈ نے اس سوال کے مختلف جوابات دیے جن میں سے ایک درست نہیں تھا جس کی نشاندہی ’بارڈ‘ کو پیرس میں منعقدہ تقریب میں آزمائشی طور پر متعارف کرائ جانے سے قبل خبر ایجنسی رائٹرز نے کر دی۔

بارڈ نے جواب دیا کہ ’جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے ذریعے نظام شمسی سے باہر سیارے کی سب سے پہلی تصویر لی گئی۔‘

لیکن یہ جواب درست نہیں تھا۔ درحقیقت نظام شمسی سے باہر سیارے کی پہلی تصویر 2004ء میں یورپین سدرن آبزرویٹری کے ’ویری لارج ٹیلی سکوپ (VLT)‘ نے لی تھی۔

بارڈ کی اس واضح غلطی نے ایلفابیٹ کی مجموعی مالیت 100 ارب ڈالر سے زیادہ گرا دی جو 1.58 کھرب ڈالر پر آ گئی۔

خبر ایجنسی کے مطابق 8 فروری کو ایلفابیٹ کے حصص کی مالیت تقریباََ نو فیصد کم ہوئی اور اسی دن اس کی حریف مائیکروسافٹ کے حصص کی مالیت تین فیصد اوپر چلی گئی۔

گزشتہ برس بھی سٹاک مارکیٹ میں گوگل کی مالیت میں چالیس فیصد کمی آئی تھی لیکن رواں برس کے آغاز کے بعد سے پندرہ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

بارڈ کی ’غلطی‘ پر گوگل کی جانب سے کہا گیا کہ چیٹ بوٹ کچھ مخصوص لوگوں کیلئے آزمائشی طور پر دستیاب ہو گا تاہم عوام کیلئے جلد متعارف کرایا جائے گا۔

گوگل نے بارڈ کی غلطی کو کھلے دل سے تسلیم ضرور کر لیا لیکن 8 فروری کو پیرس میں منعقدہ تعارفی تقریب میں یہ واضح نہیں کیا کہ وہ اپنے سرچ انجن میں بارڈ کو کب شامل کرے گی۔

گوگل کے ترجمان نے بارڈ کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چیٹ بوٹ کی آزمائش کا عمل کس حد تک سخت ہے۔‘

دوسری جانب مائیکروسافٹ کی جانب سے جیٹ جی پی ٹی میں سرمایہ کاری کے بعد اس کی مالک کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کی مالیت 29 ارب ڈالر تک چلی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کی وجہ سے سلیکون ویلی کی کمپنیوں کے حصص کی مالیت میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران بیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اس ساری صورتِ حال پر کہا جا رہا ہے کہ گوگل کی اجارہ داری خطرے میں ہے۔

لیکن اس صورت حال کے برعکس اور بارڈ کی واضح غلطی کے باوجود بینک آف امریکا کے سرمایہ کاری تجزیہ کاروں نے گوگل کی مصنوعی ذہانت کے حوالے سے حکمت عملی کو مائیکروسافٹ کے مقابلے میں سرمایہ کاروں کیلئے زیادہ موزوں قرار دیا ہے۔

اپنے گاہکوں کو جاری کردہ ایک نوٹ میں بینک آف امریکا نے لکھا کہ گوگل مصنوعی ذہانت کے شعبے کا ایک بڑا حصہ حاصل کرنے کے قابل ہے۔

ابھی سے یہ کہنا کہ چیٹ جی پی ٹی کی وجہ سے گوگل کی اجارہ داری خطرے میں ہے، قبل از وقت ہے۔ کیونکہ سرچ انجن کی آمدن کا زیادہ انحصار اشتہارات پر ہوتا ہے اور اشتہاری ایجنسیاں اُسی ویب سائٹ یا پلیٹ فارم کو زیادہ اشہارات دیتی ہیں جس کے صارفین کی تعداد زیادہ ہو اور اس کی پہنچ آبادی کے بڑے حصے تک ہو۔

اب گوگل کے صرف سرچ انجن کا موازنہ کیا جائے تو دنیا کی ستر فیصد سے زائد آن لائن تلاش کی درخواستیں گوگل پر کی جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں مائیکروسافٹ کا سرچ انجن بنگ محض تین فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں۔

اسی بناء پر اشتہاری صنعت کسی بھی دوسرے سرچ انجن کے بجائے گوگل کو زیادہ ترجیح دیتی ہے اور مستقبل قریب میں یقیناََ بارڈ کو سرچ انجن کے ساتھ جوڑ کر گوگل اپنی اجارہ داری قائم رکھے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here