انٹرنیٹ پر تقریباََ ستر فیصد تلاش کی درخواستیں صرف ایک سرچ انجن پر کی جاتی ہیں اور وہ ہے گوگل۔ لیکن گوگل صرف ایک سرچ انجن نہیں بلکہ کھربوں ڈالر مالیت کی ایک ایسی ٹیکنالوجی ایمپائر ہے جس کے تحت پچاس سے زائد بزنسز کام کر رہے ہیں۔
جنوری 1996ء میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ہوسٹل میں رہنے والے دو پی ایچ ڈی ریسرچرز لارنس ایڈورڈ پیج اور سرگئے میخالووِچ برن نے اپنے تحقیقی مقالے کے لیے ایک ایسے سرچ انجن پر کام شروع کیا جو ویب سائٹس کی درجہ بندی ان کے بیک لنکس کی تعداد کی بناء پر کرتا ہو نا کہ اُس دور کے دوسرے سرچ انجنز کی طرح اِس بنیاد پر کہ کون سا لفظ کتنی بار تلاش کیا گیا۔ یعنی جس ویب سائٹ کے بیک لنکس زیادہ ہوں اسے اوپر دکھایا جائے۔
سرگئے برن اور لیری پیج نے اپنا یہ خیال کمپیوٹر پروگرامر سکاٹ ہیسن (Scott Hassan) کو بتایا۔ سکاٹ ہیسن نے ہی گوگل کا ابتدائی کوڈ لکھا تھا، تاہم وہ اس ریسرچ پروجیکٹ کی بنیاد پر ایک باقاعدہ سرچ انجن متعارف کروانے کے پیج اور برن کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔
سکاٹ ہیسن کے انکار کے بعد اُن کی جگہ سٹینفرڈ یونیورسٹی میں تھوریٹیکل کمپیوٹر سائنس کے دو پروفیسرز بھارتی نژاد ڈاکٹر راجیو موتوانی (Rajeev Motwani) اور ٹیری وینوگراڈ (Terry Vinograd) نے پیج اور برن کو مذکورہ پروجیکٹ کا پہلا ریسرچ پیپر لکھنے میں مدد دی۔
بہرحال سرچ انجن بن گیا اور اس ابتدائی سرچ انجن کو بیک رَب (BackRub) کا نام دیا گیا۔ اس کا الگورتھم، جو ویب سائٹس کی درجہ بندی بیک لنکس کی بنیاد پر کرتا تھا، کو ’’پیج رینک‘‘ کہلایا۔
’رینک پیج‘ کا درجہ بندی کرنے والا الگورتھم چینی سافٹ وئیر انجنئیر روبن لی کے ’رینک ڈیکس‘ (Rankdex) الگورتھم سے متاثر تھا جس کی بنیاد پر چینی سرچ انجن بیدو (Baidu) بنایا گیا۔ اپنے تحقیقی مقالے میں پیج اور برن کو اُس کا حوالا بھی دینا پڑا۔
بعد ازاں ’بیک رب‘ کا نام بدل کر Google رکھ دیا گیا جو دراصل ایک لفظی غلطی کی وجہ سے بنا۔ اصل لفظ تھا googol۔ جس کا مطلب ہے بہت بڑا ہندسہ۔ یعنی 10100 ،
فروری 98ء میں گوگل میں اڑھائی لاکھ ڈالر کی پہلی سرمایہ کاری بھارتی نژاد انٹرپرینیور رام شری رام نے کی جو اُس وقت ایمازون کے ملازم تھے۔
شری رام نے ہی ایمازون کے مالک جیف بیزوس کو گوگل کے بارے میں بتایا۔ تب تک گوگل کا ابتدائی فنڈنگ رائونڈ ختم ہو چکا تھا۔ چونکہ فنڈنگ کرنے والا ایمازون کا سی ای او تھا اور گوگل ابھی محض شروع ہوئی تھی اور اسے فنڈنگ کی ضرورت تھی۔ اس لیے رائونڈ کی مدت بڑھا کر جیف بیزوس کی فنڈنگ قبول کر لی گئی۔
یوں پیج اور برن نے اپنے دوستوں، جاننے والوں اور مختلف سرمایہ کاروں سے تقریباََ دس لاکھ ڈالر جمع کر لیے اور کیلی فورنیا کے مینلو پارک میں گوگل کا پہلا دفتر کھولا جو مارچ 1999ء میں پالو آلٹو کیلی فورنیا میں منتقل کر لیا جہاں سلیکون ویلی کے زیادہ تر سٹارٹ اپس کے دفاتر تھے۔ کریگ سلورسٹین (Craig Silverstein) گوگل کے پہلے ملازم تھے۔
اگلا رائونڈ وینچر کیپٹل فنڈنگ کا تھا۔ اس کیلئے دو وینچر کیپٹل فرمز کلائنر پرکنز (Kleiner Perkins) اور سکوئیا کیپٹل (Sequioa Capital) آمنے سامنے تھیں۔ دونوں زیادہ سے زیادہ ایکویٹی لینا چاہتی تھیں۔ پیج اور برن بھی چاہتے تھے کہ یہ بڑی انویسٹمنٹ ہاتھ سے نہ جائے۔ بالآخر جون 1999ء میں دونوں فرمز مشترکہ طور پر اڑھائی کروڑ ڈالر سرمایہ کاری پر راضی ہو گئیں۔
سادہ انٹرفیس اور بہترین سرچ نتائج کی وجہ سے سن 2000ء تک گوگل نے مستند سرچ انجن کے طور پر اپنا لوہا منوا لیا اور اس پر فی دن سرچز کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔
یہ بھی پڑھیے:
آرامکو: ایک کمپنی جس نے سعودی عرب کی قسمت بدل دی
نوڈلز بیچنے سے 300 ارب ڈالر کی کمپنی تک سام سنگ کا سفر
صرف ایک بھارتی کمپنی کی آمدن پاکستان کی مجموعی برآمدات کے آدھے سے بھی زیادہ
اسی عرصے میں گوگل نے ’’سرچ کی ورڈز‘‘ کی بنیاد پر ٹیکسٹ اشتہارات حاصل کرنا شروع کر دیے۔ پہلے تو پیج اور برن ایسے اشتہارات کے حق میں نہ تھے لیکن کمپنی کی مستقل آمدن کیلئے اتفاق رائے ہو گیا۔ آج بھی ٹیکسٹ اشتہارات گوگل کی آمدن کا بڑا ذریعہ ہیں۔
جون 2000ء میں گوگل کو پہلا بڑا کلائنٹ ’’یاہو‘‘ کی صورت میں ملا جس نے اپنی ویب سائٹ پر انکتومی (Inktomi) کی جگہ گوگل کو ڈیفالٹ سرچ انجن بنا دیا۔
اس کے بعد گوگل کی مقبولیت کو گویا پَر لگ گئے۔ روزانہ سرچز کی تعداد تقریباََ دو کروڑ تک جا پہنچی۔ لفظ گوگل لوگوں کی گفتگو کا حصہ بن گیا اور اس کا مطلب ’’انٹرنیٹ پر کسی چیز کو تلاش کرنے‘‘ کے معنوں میں لیا جانے لگا۔ ویبسٹرز اور آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں اسے نئے لفظ کے طور پر شامل کر لیا گیا۔
جب کاروبار چل نکلے تو حصہ داروں میں اختیارات کی جنگ بھی شروع ہو جاتی ہے۔ یہی گوگل میں ہوا۔ 2001ء میں گوگل کے انویسٹرز چاہتے تھے کہ کمپنی کا انتظامی ڈھانچہ مضبوط بنایا جائے اور کمپنی ایک شخص کے ماتحت ہو۔
دراصل فنڈنگ حاصل کرتے وقت پیج اور برن زبانی کلامی یہ وعدہ کر بیٹھے تھے کہ جلد کمپنی کو ایک چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) کے تحت چلایا جائے گا۔
کلینر پرکنز کے سربراہ جان ڈوئر نے گوگل کے سی ای او کیلئے ایرک شیمڈ (Eric Schmidt) کا نام تجویز کیا اور کئی ماہ تک دونوں کو راضی کرتے رہے لیکن وہ دونوں کمپنی پر اپنا اختیار کھونا نہیں چاہتے تھے۔
بحث نے طول پکڑا تو سکوئیا کیپٹل نے دھمکی دے دی کہ اس کی ساڑھے بارہ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری فوری سے بھی پہلے واپس کر دی جائے اور مزید ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔
بالآخر گوگل کے دونوں بانیوں کو گھٹنے ٹیکنا پڑے اور ایرک شمیڈ گوگل کے پہلے سی ای او بن گئے۔ سرگئے برن پریزیڈنٹ آف پروڈکٹ اور لیری پیج پریزیڈنٹ آف ٹیکنالوجی کے عہدوں پر براجمان ہو گئے۔
2004ء میں گوگل نے ویب سے منسلک ای میل سروس شروع کی جو 2007ء میں جی میل کے نام سے باقاعدہ عام کر دی گئی۔
19 اگست 2004ء کو گوگل نے ابتدائی عوامی پیشکش (IPO) میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد حصص کی فروخت سے ایک ارب 67 کروڑ ڈالر کمائے جس سے کمپنی کی مالیت 23 ارب ڈالر ہو گئی۔
اس آئی پی او نے ناصرف لیری پیج اور سرگئے برن کو ارب پتی بنا دیا بلکہ سات حصہ داروں کو بھی ارب پتی اور نو سو کو کروڑ پتی بنایا۔
8 فروری 2005ء کو گوگل میپس کا اجراء کیا گیا۔ 13 نومبر 2006ء کو گوگل نے ایک ارب 65 کروڑ ڈالر میں یوٹیوب کو خرید لی۔
دراصل یوٹیوب کو خریدنے سے قبل پیج اور برن 2005ء میں ’’گوگل ویڈیوز‘‘ کے نام سے اپنا پلیٹ فارم متعارف کروا چکے تھے جس پر صارفین کو بھی ویڈیو ڈالنے کی اجازت تھی اور یہ بھی یوٹیوب جیسا ہی ویڈیو پلیٹ فارم تھا۔ لیکن یوٹیوب کی مقبولیت زیادہ تھی۔
یوٹیوب کو خریدنے کے بعد اسے ’’گوگل ویڈیوز‘‘ کے ساتھ ضم کرنے کی بجائے پیج اور برن نے فیصلہ کیا کہ اسے الگ چلایا جائے۔ بالآخر یوٹیوب پر زیادہ ٹریفک کی وجہ سے 2012ء میں گوگل ویڈیوز کو بند کرنا پڑا۔
نومبر 2007 میں گوگل کے تحت مختلف موبائل کمپنیوں پر مشتمل کنسورشیم نے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم متعارف کرایا، اس میں سام سنگ، سونی اور مٹرولا جیسی بڑی کمپنیاں شامل تھی۔ ستمبر 2008ء میں پہلا اینڈرائیڈ موبائل فون ’’ایچ ٹی سی ڈریم‘‘ منظرعام پر آیا اور یہ ٹیکنالوجی موبائل مارکیٹ میں چھا گئی۔
نوکیا مذکورہ کنسورشیم سے باہر تھی۔ اس لیے ایک زمانے میں موبائل انڈسٹری میں عالمی لیڈر اینڈرائیڈ آنے کے بعد گمنامی کے اندھیروں کی نذر ہو گئی۔
مارچ 2008ء میں گوگل نے ’ڈبل کلک‘ کو تین ارب ڈالر میں اس لیے خرید لیا کیونکہ اس فرم کے ویب پبلشرز اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے ساتھ وسیع تعلقات تھے جنہیں گوگل اپنی اشتہارات سے آنے والی آمدن بڑھانے کیلئے استعمال کر سکتی تھی۔
جنوری 2010 میں گوگل نے اپنا پہلا اینڈرائیڈ فون نیکسس وَن متعارف کرایا جس کا نام 2016ء میں گوگل پکسل رکھ دیا گیا۔ آج 190 ملکوں میں اینڈرائیڈ سسٹم تقریباِِ اڑھائی ارب سے زائد موبائل فونز پر چل رہا ہے۔
2011ء تک گوگل پر روزانہ سرچز تین ارب تک پہنچ گئیں۔ اس سطح کا بوجھ برداشت کرنے کیلئے مختلف ممالک میں گیارہ ڈیٹا سینٹرز قائم کیے گئے جن کی تعداد اَب تیس ہے۔
مئی 2012ء میں گوگل نے موٹرولا موبیلٹی کو ساڑھے بارہ ارب ڈالر میں خرید لیا تاکہ موبائل فونز اور وائرلیس ٹیکنالوجی کے میدان میں پیٹنٹ کیلئے اُسے مائیکروسافٹ اور دیگر کمپنیوں کی جانب سے قانونی رکاوٹوں کا سامنا نہ رہے۔ یہ گوگل کی مہنگی ترین خریداری تھی۔
2013 سے 2016ء تک بہترین عالمی برانڈز میں گوگل 133 ارب ڈالر مالیت کے ساتھ ایپل کے بعد دوسرے نمبر پر رہی۔
اگست 2015ء میں گوگل کی تشکیل نو کی گئی اور اس کے تمام کاروبار الگ الگ کمپنی کی حیثیت سے ’’ایلفابیٹ‘‘ کے تحت چلائے جانے لگے۔ بھارتی نژاد سُندر پچائی کو ایلفابیٹ کا پہلا سی ای او بنایا گیا۔
جنوری 2020ء میں گوگل کی پیرنٹ ایلفابیٹ نے ایک کھرب ڈالر اور مزید ایک سال بعد نومبر 2021ء میں دو کھرب ڈالر کی مارکیٹ ویلیو حاصل کی۔
گوگل صرف انٹرنیٹ، اینڈرائید، سافٹ وئیر اور سرچ انجن سروسز ہی فراہم نہیں کرتی بلکہ ایلفابیٹ کے تحت لائف سائنسر، مصنوعی ذہانت، انشورنس، قابل تجدید توانائی، سمارٹ گھریلو آلات، اور خلائی ٹیکنالوجی سے متعلق کاروبار بھی چل رہے ہیں۔ اس کمپنی میں تقریباََ ایک لاکھ 56 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔
سال 2022ء کے دوران انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ سروسز کے شعبوں میں فوربز میگزین کی جاری کردہ بہترین عالمی آجروں کی فہرست میں گوگل چوتھے اور دنیا کی دو ہزار بہترین کمپنیوں کی فہرست میں گیارہویں نمبر پر رہی۔
2018ء میں جدید ترین کمپنیوں کی فہرست میں انہترویں اور 2019ء میں دنیا کی سو بہترین ڈیجیٹل کمپنیوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر رہی۔
سال 2022ء کے اختتام پر ایلفابیٹ کی کل آمدن 257 ارب ڈالر، اثاثوں کی مالیت 359 ارب ڈالر، منافع 76 ارب ڈالر اور مجموعی مالیت ایک کھرب 58 ارب ڈالر رہی۔
دسمبر 2022ء تک گوگل میں ضم ہونے والی اور اس کی جانب سے خریدی گئی چھوٹی بڑی کمپنیوں کی مجموعی تعداد دو سو پچپن تھی۔
کہا جاتا ہے کہ گوگل کو جس کمپنی سے خطرہ ہو وہ یا تو اس کے مقابلے کی کمپنی کھڑی کر دیتی ہے یا پھر اسے خرید لیتی ہے۔
اَب گوگل اتنی بڑی بن چکی ہے کہ اس کے حوالے سے کہا جانے لگا ہے کہ ہم گلوبلائزیشن (Globalization) میں نہیں بلکہ گوگلائزیشن (Googlization) میں رہ رہے ہیں۔