دیامر بھاشا ڈیم کی اراضی کے حوالے سے پرانا تنازع بالآخر حل کر لیا گیا

دیامر بھاشا ڈیم کی اراضی پر کوہستان کا ہربان قبیلہ اور دیامر کا تھور قبیلہ دعوے دار ہیں، واپڈا نے دونوں قبائل کو معاوضہ ادا کرنے پر اتفاق کیا ہے: ذرائع

1571

اسلام آباد: پاکستان کے آبی وسائل میں اضافے کیلئے اربوں ڈالر کی لاگت سے زیر تعمیر دیامر بھاشا ڈیم کی اراضی کے حوالے سے خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے دو قبائل کے مابین طویل عرصہ سے چلا آ رہا تنازع بالآخر واپڈا کے تعاون اور ایک مقامی جرگہ کی مدد سے حل کر لیا گیا ہے۔

دیامر بھاشا ڈیم کی اراضی کے حوالے سے کوہستان کا ہربان قبیلہ اور دیامر کا تھور قبیلہ دعوے دار تھے اور دونوں قبائل کے مابین طویل عرصہ سے تنازع چل رہا تھا جسے حل کرنے کیلئے دسمبر 2020ء میں 20 رکنی جرگہ تشکیل دیا گیا تھا جس کے متعدد اجلاس ہوئے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق گزشتہ جمعہ کے روز واپڈا آفس اسلام آباد میں فریقین کا اجلاس ہوا جس میں جنرل مینجر (LA&R, HRD) بریگیڈئیر شعیب تقی، دیامر بھاشا ڈیم پروجیکٹ جنرل مینجر رائو محمد یوسف، ڈپٹی کمشنر دیامر سعد بن اسد، ڈپٹی کمشنر اپر کوہستان عارف یوسفزئی اور واپڈا کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کے دوران اراضی سے متعلق تمام معاملات کو حتمی شکل دی گئی، ذرائع نے بتایا کہ واپڈا نے دونوں قبائل کو ان کے مطالبات کے مطابق اراضی کے عوض معاوضہ ادا کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 

ڈیم فنڈ میں صرف 7 لاکھ روپے باقی رہ گئے، 12 ارب کہاں گئے؟

دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی فنانسنگ کیلئے پاکستان کے پہلے گرین یورو بانڈ کا اجراء

دیامر بھاشا ڈیم 2029ء تک مکمل ہو گا، قومی گرڈ کو سالانہ 18 ارب یونٹس بجلی ملے گی

ذرائع کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم سائٹ کے تحت آنے والی اراضی کا معاوضہ دینے پر اتفاق کرنے اور خاص طور پر آبی ذخیرہ کی جگہ کے علاوہ جرگہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ڈیم کی حد بندی کو باقی اراضی تک بھی پھیلا دیا جائے جس پر دونوں قبائل نے بھی اتفاق کیا ہے۔

اس معاملے سے آگاہ ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ ’طویل المدتی تنازع کے حل کے حوالے سے ملنے والی اس کامیابی کا اعلان جلد ڈیم سائٹ پر ایک رسمی تقریب کے دوران کیا جائے گا جبکہ اس دوران معاہدے کی تفصیلات بھی عام کی جائیں گی۔‘

اندرونی ذرائع نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ متنازع جگہ کو حاصل کرنے کیلئے واپڈٓا نے دونوں قبائل کو بطور معاوضہ 75 کروڑ روپے ادا کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے دوران یہ بھی طے پایا کہ معاوضہ کی ادائیگی یقینی بنانے کیلئے واپڈا کے اعلیٰ حکام اور دیامر کی مقامی انتظامیہ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی جبکہ دونوں قبائل نے ڈیم کی تعمیر کیلئے اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔

واضح رہے کہ طویل عرصہ سے چلا آ رہا زمین کا تنازع  ڈیم سائٹ پر تعمیراتی سرگرمیوں کو متاثر کر رہا تھا، وقت کے ساتھ اس قضیے میں شدت آ رہی تھی کیونکہ دونوں قبائل اپنے موقف سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔

دونوں قبائل گاندلو نالہ کے علاقہ میں تقریباََ 8 کلومیٹر علاقہ کی ملکیت کے دعوے دار تھے، 2014ء میں یہ جھگڑا تشدد آمیز رخ اختیار کر گیا تھا اور طرفین کے مابین فائرنگ کے نتیجے میں سات افراد مارے گئے تھے۔

اگرچہ تنازع کے حل کیلئے ماضی میں ایک کمیشن بھی بنایا گیا تھا تاہم دونوں قبائل نے اس کی سفارشات ماننے سے انکار کر دیا جس کے بعد گلگت بلتستان حکومت نے وفاق کو ’گرینڈ جرگہ‘ تشکیل دینے کی تجویز دی تاکہ معاملے کا پر امن حل نکالا جا سکے۔

اس کے علاوہ گزشتہ سال خیبرپختونخوا اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کرکے متنازع علاقہ کے دائیں طرف کی اراضی کو صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ قرار دے دیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس پر گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت نے بھی غم و غصے کا اظہار کیا، معاملے کی تحقیقات کیلئے دیامر کے علاقہ سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی۔

کمیٹی نے اپنی تحقیقات کے دوران 1947ء میں دیامر اور کوہستان کے نمائندوں کے مابین ہونے والے معاہدے کی دستاویزات ڈھونڈ نکالیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ مذکورہ اراضی دیامر کا حصہ ہے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جب ڈیم فنڈ شروع کیا تو انہوں نے بھی اراضی کے جھگڑے کا نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ یہ معاملہ عدالت سے باہر نمٹانے کی کوشش کی جائے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here