ایوان صدر کے کروڑوں کے خلافِ قواعد اخراجات پر پارلیمانی کمیٹی نے رپورٹ طلب کر لی

15 ۔2014ء میں ایوان صدر کے باغ کی دیکھ بھال اور ڈسپنسری ملازمین کی تنخواہوں پر ساڑھے 4 کروڑ روپے خرچ ہوئے، چین اور جنوبی افریقہ کے دوروں پر صدر نے ملازمین کو 61 لاکھ روپے کی ٹپ دے دی جس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں

961

اسلام آباد: پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی) کی ذیلی کمیٹی نے ماضی میں ایوان صدر کی جانب سے ساڑھے 4 کروڑ روپے کے خلاف قواعد اخراجات کی رپورٹ طلب کر لی۔

پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان مشاہد حسین سید، سید نوید قمر اور ثناء اللہ مستی خیل سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی۔

اجلاس کے دوران آڈٹ حکام نے بتایا کہ ایوان صدر میں باغ کی دیکھ بھال اور ڈسپنسری کے لئے ملازمین کی تنخواہوں پر چھ سال قبل خلافِ قواعد 45 ملین سے زائد اخراجات کئے گئے۔

ایڈیشنل سیکرٹری وقار احمد خان نے کہا کہ 2015ء میں کابینہ ڈویژن کو یہ کیس بھجوایا گیا مگر ابھی تک کابینہ ڈویژن سے جواب نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیے: 

پاکستان کا ایوان صدر مکمل طور پر شمسی توانائی پر منتقل

ایوان صدر کی ڈیجیٹلائزیشن مکمل، پارلیمنٹ 2023ء تک ہو گا

پی اے سی نے کہا کہ اس بات کو چھ سال گزر گئے ہیں، اب تک یہ مسئلہ حل ہو جانا چاہیے تھا، کمیٹی نے ہدایت کی کہ اس معاملے کی محکمانہ انکوائری کر کے چار ہفتوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔

اجلاس کے دوران 15 ۔2014ء کے آڈٹ اعتراض کے حوالے سے بتایا گیا کہ صدر مملکت کے غیر ملکی دورے کے دوران 61 لاکھ کے خلاف ضابطہ اخراجات کئے گئے۔

ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ صدر مملکت کے چین اور جنوبی افریقہ کے دورے کے دوران وہاں پر مختلف خدمات سر انجام دینے والے ملازمین کو ٹپس دی گئیں جن کی کوئی رسید نہیں ہوتی۔

اس پر پی اے سی نے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ایوان صدر کے آڈٹ اعتراضات پر غور ملتوی کر دیا اور ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں ملٹری سیکرٹری یا ایوان صدر کے پرنسپل اکاﺅنٹنگ افسر خود آئیں یا دونوں میں سے ایک کو آنا چاہیے۔

اجلاس کو بتایاگیا کہ 13۔2012ء میں افسران کو دیئے گئے اعزازیئے پر 69 لاکھ ٹیکس نہیں کاٹا گیا جس پر پی اے سی نے ہدایت کی کہ تین ماہ میں ریکوری کے لئے اکائونٹنٹ جنرل پاکستان ریونیوز (اے جی پی آر) کو لسٹ فراہم کی جائے اور جو ملازمین ریٹائر ہو گئے ہیں ان کی پنشن سے کٹوٹی کی جائے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here