اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق داﺅد نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کے لئے قومی برآمدات کا ہدف 38.7 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے جس میں سے مصنوعات کی برآمدات کا ہدف 31.2 ارب ڈالر اور خدمات کی برآمدات کا ہدف 7.5 ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔
وفاقی وزراء شوکت ترین، سید فخر امام، خسرو بختیار، مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین اور اقتصادی مشاورتی کونسل کے دیگر ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے رزاق دائود نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ درآمدات میں کمی ہو اور برآمدات بڑھیں اور اس وقت برآمدات کے حوالے سے صورت حال انتہائی حوصلہ افزا ہے، برآمدات کے اہداف حاصل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ درآمدات اس لئے بڑھتی ہیں کہ ملک کے اندر مصنوعات تیار کرنے کی بجائے ہم دوسرے ممالک سے درآمد پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، پہلی مرتبہ ملک میں مختلف مصنوعات کی تیاری شروع ہوئی ہے اور اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
مشیر تجارت کا کہنا تھا کہ موبائل فونز ہم پہلے درآمد کرتے تھے، اب یہ درآمد نہیں کئے جا رہے، اس کے علاوہ ٹیرف کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے اور خام مال پہلے 50 فیصد ڈیوٹی فری منگوایا جا رہا تھا اب وزیر خزانہ سے اس سلسلہ میں بات ہوئی ہے کہ آئندہ سال سے اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
برطانیہ کو پاکستانی برآمدات میں 23 فیصد اضافہ، درآمدات میں 12 فیصد کمی ریکارڈ
نئے مالی سال کے پہلے ماہ 278 ملین ڈالر کی برآمدات کیساتھ ’مانچسٹر آف پاکستان‘ بازی لے گیا
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت صحیح معنوں میں ملکی برآمدات میں اضافہ پر توجہ دے رہی ہے، رواں سال برآمدات کا ہدف 38.7 ارب مقرر ہے، اس میں مصنوعات کی برآمدات کا ہدف 31.2 ارب ڈالر اور خدمات کی برآمدات کاہدف 7.5 ارب ڈالر ہے۔
اس موقع پر وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ 1972ء کے بعد پہلی مرتبہ منظم انداز میں قومی معیشت کے اہم شعبوں کے حوالہ سے منصوبہ بندی کی گئی ہے، اقتصادی مشاورتی کونسل میں نجی شعبہ کے سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا گیا ہے اور 14 ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کرکے مختصر، درمیانے اور طویل المیعاد پالیسیاں اور اہداف کا تعین کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی مشاورتی کونسل کے مختلف گروپوں کی جانب سے پیش کردہ سفارشات اور پالیسیوں پر عمل درآمد کیلئے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ڈویلپمنٹ (پائیڈ) سے ماہرین لئے جائیں گے، یہ ماہرین مختلف وزارتوں کے ساتھ تعاون کریں گے اور ان گروپوں کے مقرر کردہ اہداف پر پیشرفت کے بارے میں وزیراعظم کو ماہانہ پریزنٹیشن دی جائے گی۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ جامع اور پائیدار اقتصادی بڑھوتری کے حصول کیلئے سفر کا آغاز کر دیا گیا ہے، ستمبر کے مہینے سے کارکردگی کا جائزہ لینے کا عمل شروع ہو گا، یہ ایک اہم پیشرفت ہے کیونکہ منصوبہ بندی کے بغیر ہم جامع اور پائیدار بڑھوتری حاصل نہیں کر سکتے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ٹی برآمدات 2 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں
رواں سال ایک ارب ڈالر کے ’مینوفیکچرڈ اِن پاکستان‘ موبائل فون برآمد کرنے کا ہدف مقرر
’میڈ اِن پاکستان‘ موبائل فونز کی تعداد درآمد کردہ فونز سے بڑھ گئی، کروڑوں ڈالر کی بچت
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے نتیجہ میں معیشت کے تمام اشاریے درست میں گامزن ہیں، اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ملک میں کاروبار کیلئے اعتماد کی رینکنگ بڑھائی ہے، پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس 16 سے 17 فیصد تک بڑھی ہیں، اسی طرح موبائل فونز کی برآمدات درآمدات سے بڑھ گئی ہیں۔
وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ وتحقیق سید فخر امام نے اس موقع پر بتایا کہ زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن گزشتہ 20 سال میں زراعت کے شعبہ پر توجہ نہیں دی گئی۔ 1960ء سے 2001ء تک زرعی ترقی 4 فیصد تھی لیکن 20 سال میں یہ کم ہو کر 3 فیصد پر آ گئی۔
انہوں نے کہا کہ کاشت کار عمران خان کی اولین ترجیح ہیں، کاشت کار کا معیار زندگی بہتر معاوضہ سے ہی بلند ہو سکتا ہے، ملک میں 38 فیصد زرعی رقبہ پر گندم کاشت ہوتی ہے، اس کی امدادی قیمت 14 سو سے بڑھا کر 18 سو کرنے سے اس کی پیدوار میں 22 لاکھ ٹن ریکارڈ اضافہ ہوا، اسی وجہ سے اس سال کوئی بحران پیدا نہیں ہوا۔
وفاقی وزیر خوراک نے کہا کہ دھان کی پیداوار میں 10 لاکھ ٹن اور مکئی کی پیداوار میں 7 لاکھ ٹن اضافہ ہوا،کپاس کی پیداوار کا 10 لاکھ بیلز کا ہدف تھا، توقع ہے کہ اس کے قریب قریب پیداوار ہو گی، موسم کی وجہ سے گزشتہ سال سندھ میں ہدف سے 50 فیصد کم پیداوار ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے:
کاروں کی فروخت میں 114 فیصد اضافہ، کیا معیشت بہتر ہو گئی؟
وبا کے بعد پاکستانی معیشت کے کس کس شعبے میں ترقی متوقع ہے؟
معاشی محاذ سے اچھی خبر، 2018ء کے بعد پاکستان کا بزنس کانفیڈنس انڈیکس مثبت قرار
انہوں نے کہا کہ کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت کاشت کاروں کو دیئے جانے والے قرضوں سے زرعی پیداوار میں بہتری آئے گی، اس کے علاوہ تحقیق اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر خصوصی توجہ مرکوز کر رہے ہیں، ملک میں آم اور کینو کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہم لائیو سٹاک اورفشریز کو بھی اَپ گریڈ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف پر ہماری توجہ مرکوز ہے، اس کی وجہ سے آمدن میں اضافہ ہوتا ہے تو مصنوعات اور خدمات کی طلب بھی بڑھ جاتی ہے تاہم ملکی پیداوار یہ طلب پوری نہیں کر سکتی جس کی وجہ سے درآمدات پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس سے ادائیگیوں کا توازن خراب ہوتا ہے اور پھر عالمی مالیاتی اداروں سمیت دیگر کے پاس جانا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم پائیدار اور جامع ترقی کی جانب آئیں، اس کیلئے طویل اور قلیل المدتی حکمت عملی مرتب کی جا رہی ہے۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے سرمایہ کاری کی شرح 15 فیصد ہے، اس کو بڑھا کر 20 فیصد کرنا ہے، کاشت کار کی پیداوار نہیں بڑھے گی تو ہمیں درآمدات کرنا ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں آئی ٹی کے شعبہ میں ترقی ہوئی ہے تاہم ہماری برآمدات دو ارب ڈالر ہیں جبکہ پڑوسی ملک بھارت کی برآمدات 150 ارب ڈالر سے لے کر 200 ارب ڈالر تک ہیں، ہمیں بڑے کاروباری طبقہ کیلئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں، ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہے، ہمارے اخراجات 20 فیصد جبکہ محصولات 12 فیصد ہیں اس خلیج کو کم کرنا ہے۔
اقتصادی مشاورتی کونسل کے صنعت و برآمدات سے متعلق گروپ کے رکن محمد علی تابا نے اس موقع پر بتایا کہ برآمدات میں اضافہ اور نئی صنعتوں کا قیام ہماری ترجیح ہے، موجودہ حکومت نے طلب کے مطابق مصنوعات مقامی طور پر تیار کرنے کی پالیسی اپنائی ہے جو خوش آئند ہے، مینوفیکچرنگ، برآمدات اور درآمدات کے متبادل مقامی اشیا کی تیاری پر توجہ دے کر 7 سے 8 فیصد کی گروتھ ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ ہر شعبہ میں کم سے کم ایک ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کیا جائے، اقتصادی مشاورتی کونسل کی سفارشات کو بجٹ میں شامل کیا گیا ہے اور وزیر خزانہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں باقی ماندہ سفارشات کو شامل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
16 سال بعد بڑی صنعتوں کی پیداوار میں ترقی کی شرح میں 15 فیصد اضافہ
وبا کے باوجود بڑی درآمدی منڈیوں کو پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ
مالی سال کے پہلے مہینے پاکستان کی امریکا کے ساتھ تجارت 63 فیصد سرپلس رہی
اقتصادی مشاورتی کونسل کے شریک چیئرمین اور ہاﺅسنگ و کسنٹرکشن گروپ کے رکن عارف حبیب نے کہا کہ موجودہ حکومت نے تعمیرات کے شعبہ پر خصوصی توجہ دی ہے، اس کیلئے خصوصی پیکیج دیا گیا جس کے اچھے نتائج آ رہے ہیں، تعمیراتی میٹریل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، اسی طرح چھوٹے اور کم لاگت گھروں کی تعمیر کیلئے قرضوں کے اجرا میں بھی اضافہ ہوا ہے، اس وقت چھوٹے گھروں کی تعمیر کیلئے 150 ارب روپے تک کے قرضوں کی درخواستیں آئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ معیشت کی طرح ہاﺅسنگ کے شعبہ میں بھی بڑھوتری کا عمل پائیدار بنیادوں پر ہو اور اس کی ڈاکومنٹیشن کو یقینی بنایا جائے۔ ملک کے غریب لوگوں کو رعایتی قرضوں کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے اور اس سے معاشی اہداف کا حصول بھی ممکن ہو گا۔
مالیاتی شعبہ اور قرضوں کی مینجمنٹ کے حوالہ سے اقتصادی مشاورتی کونسل کے گروپ کے چیئرمین سید سلیم رضا نے اس موقع پر بتایا کہ مجموعی قومی پیداوار میں مالیاتی شعبہ کا حصہ دنیا کے مقابلہ میں کم ہے جس میں اضافہ کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، پاکستان میں کیش ٹو ڈپازٹ کی شرح دنیا کے مقابلہ میں 42 فیصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی سکیورٹیز کو وسعت دی جا رہی ہے اس حوالہ سے ایک ایپ بھی بنائی جا رہی ہے، روشن ڈیجیٹل اکاﺅنٹ اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہماری ترجیح ہے۔ قرضوں کی پائیداریت اور فنانشل مارکیٹ کے استحکام کیلئے جے پی مارگن اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ہماری بات چیت جاری ہے، مرچنٹ اور ریٹیلرز کو مربوط کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ یونیورسل کیو آر کوڈ کی تشکیل کا کام بھی جاری ہے۔
بعد ازاں پریس کانفرنس کے دوران ہی مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جامع منصوبہ بندی کی گئی ہے، اقتصادی مشاورتی کونسل میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل ہے، مختلف گروپوں کی سفارشات اور تجاویز پر عملدرآمد کا طریقہ کار انتہائی آسان ہے، ہر وزیر کو ہر ماہ وزیراعظم کے سامنے پیش ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے اگرچہ دو سال رہ گئے ہیں مگر اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے کہ جامع منصوبہ بندی ہونی چاہئے، چاہے ہم ہوں یا نہ ہوں، وزیراعظم 10 ڈیموں کی تعمیر کے منصوبہ پر بھی عمل پیرا ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ چارٹر آف اکانومی ہونا چاہئے، اگر اپوزیشن جماعتیں اس حوالہ سے آگے بڑھتی ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، گذشتہ روز میری آئی ایم ایف کے حکام سے اچھی بات چیت ہوئی ہے، ستمبر کے آخر میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان باضابطہ بات چیت شروع ہو گی، اکتوبر میں واشنگٹن کے دورہ کے دوران آئی ایم ایف کے حکام سے مزید تفصیلی بات چیت ہو گی۔