اسلام آباد: سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو حیسکول پٹرولیم لمیٹڈ کا فرانزک آڈٹ کرنے کی ہدایت کر دی جبکہ سٹیٹ بینک سے 25 ہزار ماہانہ ٹرانزیکشن پر چارجز عائد کرنے پر رپورٹ طلب کر لی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدرات پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں بینکوں کی جانب سے رقوم کی ٹرانزیکشن پر چارجز کا معاملہ زیر بحث آیا۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بجٹ میں بینکوں سے رقوم کی ٹرانزیکشن کی تجویز مسترد کی گئی تاہم بینکوں کی جانب سے چارجز کے میسجز آ رہے ہیں۔
اس پر ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک نے بتایا کہ 25 ہزار نہیں بلکہ اس سے زائد ماہانہ ٹرانزیکشن پر چارجز لاگو ہیں، 25 ہزار تک کی رقم ایک ماہ میں ایک بار بغیر چارجز کے ٹرانزیکشن کی جا سکتی ہے اور اس پر 0.1 فیصد ٹیکس کی تجویز تھی۔ جولائی میں 82 فیصد ٹرانزیکشن بغیر کسی چارجز کے ہوئیں، صرف 18 فیصد افراد نے ٹرانزیکشن پر چارجز ادا کئے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایسی کیا ضرورت پیش آئی ہے کہ اب ٹرانزیکشن پر چارجز شروع کئے گئے ہیں؟ چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ یا تو اس رقم کی حد 50 ہزار پر لے جائیں یا اسے بالکل ختم کریں۔ سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ یہ غریب آدمی کیلئے اچھا فیصلہ نہیں، 25 ہزار ہو یا 50 ہزار اس چارجز کا جواز ہی نہیں ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سٹیٹ بینک کی جانب سے ٹرانزیکشن پر چارجز مسترد کر تے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ کمیٹی میں جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ہدایات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیے:
ہسکول پٹرولیم کا خیبر پختونخوا کیلئے لائسنس معطل، ایک کروڑ روپے جرمانہ
ناقص حکومتی پالیسیاں اور کرنسی کی گراوٹ کیسے پاکستان میں پٹرولیم کی دوسری بڑی کمپنی کو زوال سے دوچار کررہی ہیں
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے حیسکول کمپنی کی فنانشل رپورٹ کا معاملہ زیر غور آیا۔
قائمہ کمیٹی کو ایس ای سی پی کی جانب سے بتایا گیا کہ ایک سال میں حیسکول کی واجب الادا رقم دگنی ہو گئی ہے، 2019ء میں حیسکول کے واجبات 2018ء کے مقابلے میں 24 ارب سے بڑھ کر 44 ارب تک پہنچ گئے ہیں۔
ایس ای سی پی کے حکام نے بتایا کمپنی مسلسل اپنے نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہی تھی مگر چند ماہ میں منافع سے بڑے پیمانے پر نقصان میں چلی گئی، اسے بہت کم وقت میں 95 کروڑ 60 لاکھ روپے کے منافع سے 11 ارب کا نقصان ہوا۔
حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ایس ای سی پی نے کمپنی کو ہدایات جاری کی تھیں، حیسکول کے خلاف دو تحقیقات بھی جاری ہیں جو تین ماہ میں مکمل کر لی جائیں گی، کمپنی کے خلاف فوجداری یا دیوانی کارروائی ایس ای سی پی ایکٹ کے تحت کی جائے گی۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ حیسکول پٹرولیم کا فرانزک آڈٹ کرانا چاہیئے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ اگر آڈیٹنگ کمپنیاں اپنی ذمہ داری ٹھیک طریقے سے ادا کریں تو فراڈ ممکن نہیں۔
سینیٹر مصدق ملک نے سوال اٹھایا کہ حیسکول پٹرولیم نے اتنے بڑے پیمانے پر غیر قانونی اقدامات کیے، ایس ای سی پی نے ایکشن کیوں نہیں لیا؟ سٹاک ایکسچینج کو شیئر ہولڈرز کے سرمائے کا تحفظ کرنا چاہیے تھا، کمپنی کا لائسنس معطل کیا جا سکتا تھا۔
قائمہ کمیٹی نے حیسکول پٹرولیم کا فرانزک آڈٹ کرانے کی ہدایت جاری کر دی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے سینیٹرز ممبران کی مشاورت کے ساتھ ادارے کو فارنزک آڈٹ، آڈیٹرز، پنلٹی اور ادارے کو با اختیار بنانے کے حوالے سے اقدامات اٹھانے کے حوالے سے تجاویز دیں۔
چیئرمین کمیٹی نے اسٹیٹ بینک سے 18 بینکوں کی اسٹیٹمنٹس طلب کرتے ہوئے کہا جس نے ان بینکوں کو گارنٹی دی ہے، اس کی لسٹ بھی مہیا کی جائے اور تین ہفتوں میں مفصل رپورٹ پیش کی جائے۔
سیاسی طور پر ایکسپوزڈ پرسن کے بینک اکاونٹ کا معاملہ
اجلاس میں سٹیٹ بینک کے ساتھ سیاسی طور پر ایکسپوزڈ پرسن کے بینک اکاونٹ کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی معاونت کے حوالے سے ہمیں رپورٹ پیش کریں کہ کتنے بیوروکریٹس، سیاستدان اور دیگر افراد اس میں شامل ہیں۔
سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ یہ مسئلہ کافی سالوں سے چل رہا ہے جو کہ ہم سب کیلئے شرمندگی کا باعث ہے، سینیٹر محمد طلحہ محمود نے سٹیٹ بینک حکام کو معاملے کے ممکنہ حل کیلئے ایک ماہ کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ ایس بی پی اس معاملے میں بھرپور کردار ادا کرے۔
اراکین کمیٹی نے کہا کہ سیاستدانوں کو اکائونٹ کھولنے میں مہینے لگ جاتے ہیں اور اکائونٹ کھلوانے جائیں تو کئی سوالات کئے جاتے ہیں جس پر ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ یہ صرف سیاستدانوں کیلئے نہیں بلکہ گریڈ 20 سے اوپر افسران بھی اس میں شامل ہیں۔
قائمہ کمیٹی نے پولیٹیکل ایکسپوزڈ پرسنز کے خلاف ہونے والے کیسز کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔
اجلاس میں ایف بی آر کا ڈیٹا کا ہیک ہونے کے معاملے کا بھی جائزہ لیا گیا۔ ممبر پالیسی ان لینڈ ریونیو نے کہا کہ اس پر ممبر آئی ٹی ایف بی آر ہی بتا سکتے ہیں۔
سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ ایف بی آر کا ڈیٹا ہیک ہوا ہے ایف بی آر سے پوچھا جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے ایف بی آر سے ڈیٹا ہیک ہونے سے متعلق تین روز میں جواب طلب کر لیا اور سینیٹ سیکرٹریٹ کو چیئرمین ایف بی آر کو خط لکھنے کی ہدایت کر دی۔