آئندہ مالی سال کے لیے ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 5859 ارب روپے مقرر

آئندہ مالی سال کیلئے خام محصولات کا تخمینہ 7909 ارب روپے لگایا گیا ہے جو رواں مالی سال سے 24 فیصد زائد ہے، وزیر خزانہ شوکت ترین

592

اسلام آباد: آئندہ مالی سال 2021-22ء کے دوران مجموعی محصولات کا تخمینہ سات ہزار 909 ارب روپے لگایا گیا ہے جو رواں مالی سال 2020-21ء کے مقابلے میں 24 فیصد زائد ہے۔

وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ کہ آئندہ مالی سال کے خام محصولات کے تخمینہ کے مقابلے میں 2020-21 کے لئے نظرثانی شدہ تخمینہ جات چھ ہزار 395 ارب روپے ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال 2021-22ء کے لیے ایف بی آر کے ٹیکس ہدف میں 24 فیصد اضافہ کیا گیا اور اسے چار ہزار 691 ارب روپے سے بڑھا کر پانچ ہزار 859 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب وفاقی ٹیکسوں میں آئندہ مالی سال کے لئے صوبوں کا حصہ تین ہزار 411 ارب روپے رکھا گیا ہے۔

رواں مالی سال 2020-21ء کے دوران دو ہزار 704 ارب روپے کے مقابلے میں آئندہ مالی سال 2021-22ء میں وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ تین ہزار 411 ارب روپے رہے گا جو 707 ارب روپے زائد ہے۔

صوبوں کو منتقل کرنے کے بعد وفاق کے خالص محاصل چار ہزار 497 ارب روپے رہیں گے جو گزشتہ سال کی نسبت 22 فیصد زیادہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

بجٹ 2021-22ء: کس چیز پر کتنا ٹیکس لگا اور کس پر چھوٹ ملی؟

فون کالز، انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس پر ٹیکس کا فیصلہ واپس

حکومت نے ٹیکس کے دائرہ کا رمیں وسعت اور زیادہ سے زیادہ محصولات جمع کرنے کے لیے خود تشخیصی سکیم متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت ہر شخص اپنے ٹیکس گوشوارے خود بنا کر ایف بی آر کو بھیجے گا۔

وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ خود تشخیصی سکیم کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا جس کا مطلب ہے کہ ہر شخص اپنے ٹیکس گوشوارے خود ایف بی آر کو بھیجے گا۔ اگر ایف بی آر کے پاس اس کے خلاف کوئی مصدقہ معلومات نہ ہوں جو گوشوارے میں درج ہیں تو تمام ٹیکس گوشوارے درست سمجھے جائیں گے بصورت دیگر اسے آڈٹ کے لئے بھیج دیا جائے گا۔

اسی طرح آئندہ مالی سال کے دوران حکومت نے ملک بھر کے ریٹیلرز کو پوائنٹ آف سیلز سسٹم کے ساتھ منسلک کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے تاکہ سیلز ٹیکس آمدن میں اضافہ کیا جا سکے۔

اس وقت ملک بھر سے محض 10 ہزار سے زائد ریٹیلرز ایف بی آر کے پوائنٹ آف سیل نظام کے ساتھ منسلک ہیں تاہم ہزاروں ایسے ریٹیلرز ہیں جو اس نظام کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس چوری میں ملوث ہیں کیونکہ وہ اصل سیلز ایف بی آر کو ظاہر نہیں کر رہے۔

حکومت نے صارفین پر بھی زور دیا ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ بڑھانے میں ساتھ دیں اور ریٹیلرز سے خریداری کرتے وقت پکی رسید لازمی لیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ صارف سے جو سیلز ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے وہ حکومتی خزانے میں بھی جا رہا ہے یا نہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here