اسلام آباد: وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ موبائل کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے کی وزیراعظم اورکابینہ نےمخالفت کی جس کے بعد ان سب پر ٹیکس عائد نہیں ہو گا۔
ہفتہ کو وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار، معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور مشیر تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق دائود کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ دس سالوں میں پائیدار ترقی کی شرح 20 فیصد تک لے جانے کا ہدف ہے، مستحکم اور پائیدار ترقی کے لئے پیداوار بڑھانا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں زراعت اور صنعت سمیت مختلف شعبوں کو ٹیکس میں رعایت دی جا رہی ہے، کاشت کار کو ڈیڑھ لاکھ روپے ہر فصل کا دیں گے، ٹریکٹر لیز کرنے کے 2 لاکھ روپے دیں گے اور شہری علاقوں میں 5 لاکھ روپے تک کا بلا سود قرضہ دیں گے تاکہ وہ کاروبار کر سکے۔
یہ بھی پڑھیے:
8 ہزار 487 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش، تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ
بجٹ 2021-22ء: فون کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس سروس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد
وزیر خزانہ نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ بلاواسطہ کی بجائے بلواسطہ ٹیکس جمع ہوں، ٹیکس دینے والوں کو مزید سہولیات دیں گے، براہ راست ٹیکس دینے والوں کیلئے انعامی سکیم متعارف کرا رہے ہیں۔ آئندہ مالی سال 500 ارب روپے اضافی ٹیکس جمع کریں گے جب کہ بجلی اور گیس کے بلوں کے ذریعے نان فائلر تک پہنچ جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ بڑے ریٹیلرز کی 1500 ارب کی سیل ہے، تمام بڑے اسٹورز پر سیلز ٹیکس لگانا ہے، صارفین پکی پرچی لیں گے تو انعام دیں گے، ترکی اور باقی ملکوں میں ایسی کامیاب اسکیمیں آئیں۔
شوکت ترین نے کہا کہ ہم منی بجٹ نہیں لائیں گے، انکم ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے، ڈویلپنگ ملکوں میں ان ڈائریکٹر ٹیکس بڑھتے ہیں جب کہ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ ہماری آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جاری ہے، ہماری منزل ایک ہے، آئی ایم ایف چاہتا ہے ہم مستحکم گروتھ کی جانب جائے۔
شوکت ترین نے کہاکہ آٹو انڈسٹری میں ٹیکس چھوٹ سے 800 سی سی تک گاڑیاں سستی ہوں گی۔ درآمدات اور برآمدات کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، پائیدار ترقی کے حصول کیلئے مستقبل کو مدنظر رکھ کر فیصلے کئے ہیں، بجٹ ہر طبہ کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کے شعبہ کو مالیاتی اعتبار سے پائیدار بنانا چاہتے ہیں، سارے ڈسکوز کو ایک خودمختار بورڈ کے نیچے لائیں گے۔
انہوں نےکہا کہ ملک کے 40 لاکھ غریب خاندانوں تک سستے قرضے پہنچائیں گے جبکہ گھروں کی تعمیر کیلئے غریبوں کو تین لاکھ روپے تک سبسڈی دی جائے گی، کاروبار کے آغاز کیلئے 5 لاکھ روپے کا بغیر سود قرض 3 سال کے لیے دیا جائے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اخوت پروگرام نے ڈیڑھ سو ارب روپے کے چھوٹے قرضے جاری کیے جن میں ریکوری کی شرح 99 فیصد ہے۔ حکومت کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ایک سال میں 500 سے 600 ارب روپے دے، عوام کو قرضے ہول سیل فنانسنگ، کمرشل بینکوں سے دلا رہے ہیں۔ بینکوں کو ضمانت حکومت دیں گی کہ قرضے کے پیسے واپس آئیں گے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار نے کہا کہ حکومت نے برآمدات کو تقویت دینے کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں، انڈسٹری کو بجلی اور گیس کی فراہمی کیلئے سبسڈی دیں گے۔
انہوں نے کہاکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پورے ملک میں خصوصی اقتصادی زونز قائم کئے جا رہے ہیں، پہلے مرحلے میں رشکئی، فیصل آباد، دھابیجی اور بوستان زون پر ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کیا گیا ہے۔
مشیر تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق دائود نے کہا کہ ٹیکسٹائل برآمدات کا ہدف 20 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے، خام مال کی بجائے ویلیوایڈ اشیاء پاکستان میں بننا شروع ہو جائیں گی۔