اسلام آباد: وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کو بتا دیا ہے کہ ٹیرف اور ٹیکسوں کی شرح میں یکدم اضافہ کی گنجائش نہیں، وزیراعظم بھی اس کے خلاف ہیں۔
معاون خصوصی برائے محصولات ڈاکٹر وقار مسعود اور سیکرٹری خزانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ موجودہ حکومت کو آغاز سے ہی مشکل اقتصادی صورت حال کا سامنا تھا، زرمبادلہ کے ذخائر کم اور حسابات جاریہ کا خسارہ 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا، دوست ممالک سے جتنی معاونت کی امید تھی اتنی حاصل نہیں ہوئی، ایسے حالات میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو ماحول ماضی کے نسبت میں مشکل تھا۔
انہوں نے کہا کہ 2008ء میں جب وہ آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے دنیا پاکستان کے ساتھ تھی اس لئے پاکستان پر زیادہ شرائط عائد نہیں کی گئیں تھیں۔
تاہم، شوکت ترین نے کہا کہ موجودہ حکومت جن حالات میں آئی ایم ایف کے پاس گئی، اسے دوستانہ قرار نہیں دیا جا سکتا، آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے جو شرائط عائد کی گئیں ان کا سیاسی نقصان ہو سکتا تھا تاہم حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق اقدامات کئے اور معیشت استحکام کی جانب گامزن ہو گئی۔ اس دوران کوویڈ-19 کی کی وجہ سے تمام اقدامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔
یہ بھی پڑھیے:
ایف بی آر: دس ماہ میں 14 فیصد اضافے سے 3780 ارب روپے ٹیکس جمع
آئی ایم ایف کی تجویز پر حکومت کا انکم ٹیکس سلیبس کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ حکومت نے کوویڈ-19 کے عرصہ میں 1240 ارب روپے کا امدادی پیکج بھی دیا جس پر حکومت کو کریڈٹ ملنا چاہئیے، اس پیکج کے تحت انسانی زندگیوں اور کاروبار کے تحفظ کیلئے اقدامات کئے گئے، پیکج سے صورت حال کو مستحکم کرنے میں مدد ملی اور معیشت نے بڑھوتری کے اشارے دینا شروع کئے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے، سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، محصولات اکھٹا کرنے کی شرح میں مارچ میں 40 فیصد اضافہ ہوا جو پچھلے سال منفی چھ فیصد تھا، 20 اپریل تک ریونیو میں بڑھوتری کی شرح 92 فیصد تھی تاہم ایک بار پھر کوویڈ کی لہر نے ملک کو متاثرکیا ہے، اس وقت صرف کورونا سے خطرہ ہے، بصورت دیگر اقتصادی اشاریے بحالی کی عکاسی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا معاشی فلسفہ یہ ہے کہ اب ہمیں استحکام سے بڑھوتری کی طرف جانا ہے، اس کیلئے حکومت نے لائحہ عمل وضع کر لیا ہے، حکومت سرکاری شعبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے فنڈز میں اضافہ، زراعت اور تعمیرات کے شعبہ جات کو ترجیح دے رہی ہے اور ان شعبوں کیلئے مراعات دی جا رہی ہے، اس سے ملک میں روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے:
’آئی ایم ایف کی تلوار صرف ہم پر لٹک رہی ہے‘، وزیر خزانہ کا دوبارہ مذاکرات کا عندیہ
آئی ایم ایف کیساتھ کیے گئے وعدوں کی وجہ سے صنعتوں کیلئے بجلی 36 فیصد مہنگی ہونے کا امکان
شوکت ترین نے کہا کہ حکومت محصولات پر خصوصی توجہ دے گی، امید ہے کہ کوویڈ-19 کی حالیہ لہر مختصر ثابت ہو گی اور اس بعد بحالی کی ٹرین دوبارہ پٹری پر چڑھ جائے گی۔ ہم منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے تھے، 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں پاکستان پانچ سالہ منصوبہ بندی کرتا تھا، اُس وقت اہم ایشیائی ممالک کے مقابلہ میں پاکستان کی معیشت بہترین تھی۔
انہوں نے کہا کہ اُسی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اقتصادی مشاورتی کونسل میں 12 ذیلی گروپس بنائے گئے ہیں تاکہ مختلف شعبوں میں مختصر، قلیل اور طویل المدتی پالیسیوں پر کام کیا جا سکے۔ مالیاتی استحکام لانا ہمارا مطمع نظر ہے، ہم نے اخراجات کے استعمال کو بہتر بنانا ہے، این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کیلئے 59 فیصد سے زائد حصہ اس لئے دیا جاتا ہے تاکہ صوبے صحت، تعلیم اور ترقی کے منصوبے شروع کر سکیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ایف بی آر نے اچھا کام کیا ہے تاہم لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں آ رہے۔ بجٹ میں ہراسمنٹ کے خاتمہ کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، ریونیو بڑھانا ہے تاہم اس کیلئے مار دھاڑ نہیں کریں گے، جنرل سیلز ٹیکس کو مرکزی دھارے میں لایا جائے گا۔ بجلی کے شعبہ کو بہتر بنانے پر بھی کام ہو رہا ہے، اس وقت کیپسٹی ادائیگیوں کا معاملہ اہم ہے، اگر گروتھ کی شرح سات فیصد سے زیادہ ہو تو ادائیگیاں مسئلہ نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری صنعت میں مسابقت نہیں ہے جس کی وجہ سے درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہیں، حکومت صنعتوں کو مضبوط اور مستحکم بنائے گی، پاکستان میں برآمدات سے متعلق صنعتوں میں براہ راست راست بیرونی سرمایہ کاری صفر ہے، جن ممالک نے ترقی کی ہے انہوں نے برآمدات پر مبنی صنعتوں میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کیلئے اقدامات کئے ہیں، اس ضمن میں حکومت سی پیک کو استعمال میں لائے گی، خصوصی صنعتی زونز میں آوٹ سورس صنعتوں کے قیام کیلئے چین سے رابطہ کیا جائے گا، اس سے 85 ملین روزگار کے مواقع پیدا ہونے کا امکان ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان پروگرام جاری ہے، پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے نہیں نکلا، تاہم ہم نے آئی ایم ایف سے بات کی ہے کہ ٹیرف اور ٹیکسوں کی شرح میں یکدم اضافہ کی گنجائش نہیں، عام آدمی ٹیکسوں سے تنگ آ چکا ہے، فیول چارجز میں اضافہ سے ہر چیز پر فرق پڑے گا اور مہنگائی بڑھے گی۔ ہم اس پروگرام سے نکلیں گے نہیں، تاہم ہمیں سپیس چاہئیے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کو اختراعی طریقوں سے بڑھائیں گے، ٹیکسوں کی شرح میں آہستہ آہستہ اور گنجائش کے مطابق اضافہ کیا جائے گا، آئی ایم ایف پروگرام سے دنیا دیکھتی ہے کہ ملک استحکام کی طرف جا رہا ہے، آئی ایم ایف حکام سے بات چیت میں ان کا رویہ ہمدردانہ تھا۔