لاہور: قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور نے پی یو ٹائون تھری (جامعہ ٹائون) کے حوالے سے مالی بے ضابطگیوں کے ضمن میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے سوموار کو متعلقہ ٹائون ڈویلپر کو سوال نامہ بھیج کر اراضی کا ریکارڈ اور ماسٹر پلان طلب کر لیا۔
پی یو ٹائون تھری کا منصوبہ 2016ء میں پنجاب یونیورسٹی اکیڈیمک سٹاف ایسوسی (پی یو اے ایس اے) نے شروع کیا تھا جس کا دعویٰ تھا کہ منصوبہ پانچ سال کے اندر مکمل ہو گا اور یونیورسٹی سٹاف کی رہائشی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے رعایتی نرخوں پر اراضی فراہم کی جائے گی۔
واضح رہے کہ مصفطیٰ ٹائون، پنجاب یونیورسٹی ایمپلائز ہائوسنگ سوسائٹی ٹائون وَن اور ٹو بھی مذکورہ ایسوسی ایشن کے بنائے گئے منصوبے تھے تاہم یہ منصوبے سرکاری فنڈنگ سے آزاد تھے اور ان کے اخراجات ایسوسی ایشن نے اپنی مدد آپ کے تحت برداشت کیے۔
پنجاب یونیورسٹی اکیڈیمک سٹاف ایسوسی کا کہنا ہے کہ جامعہ ٹائون تھری کی اراضی ارکان کی رہائشی ضروریات کو مدِنظر رکھ کر حاصل کی گئی اور منصوبے کا ماسٹر پلان لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو جمع کرایا گیا۔ اراضی کے حصول سے قبل محکمہ آب پاشی، پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیز (ایل ڈی اے)، واسا اور لینڈ ریونیو (ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو) سے این او سی حاصل کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیے:
نیب کا رنگ روڈ سکینڈل کی تحقیقات کا فیصلہ
نیب نے 535 ارب روپے بدعنوان عناصر سے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کروائے
ریکوڈک کیس: نیب کا ملزمان کیخلاف ناقابل تردید ثبوت اکٹھے کرنے کا دعویٰ
تاہم ایسوسی ایشن کے مطابق جامعہ ٹائون تھری میں ترقیاتی کاموں کا ٹھیکہ جس کمپنی کو دیا گیا تھا اُس کے شراکت داروں میں جھگڑے کی وجہ سے پرانا کنٹریکٹ منسوخ کر دیا گیا اور فوری طور پر ایک نیا کنٹریکٹ نئی کمپنی کو دیا گیا ہے۔ تاہم پرانی کمپنی کے ایک شراکت دار اَب نیب، ایل ڈی اے اور دیگر سرکاری اداروں میں جامعہ ٹائون تھری کے خلاف درخواستیں جمع کروا رہے ہیں۔
اس کے برعکس پنجاب یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اس کا مذکورہ ہائوسنگ منصوبے سے کوئی تعلق نہیں۔ یونیورسٹی ترجمان کے مطابق 8 مارچ 2021ء کو بذریعہ خط تمام ملازمین کو مطلع کیا گیا تھا کہ وائس چانسلر مذکورہ ہائوسنگ منصوبے سے متعلق کسی قسم کی درخواستوں یا دستاویزات کو زیرغور نہیں لائیں گے۔
تاہم اپریل 2023ء میں نیب نے جامعہ ٹائون تھری میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں پر اس کے ڈیویلپر میاں جاوید کو طلب کر لیا۔ ان کے خلاف یونیورسٹی ملازمین اور عام عوام سے مبینہ طور پر 2 ارب 70 کروڑ روپے لینے کا الزام ہے۔
اس سے قبل اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹوں کی خرید و فروخت میں غبن اور غیر قانونی سرگرمیوں کے واقعات کا پردہ فاش کیا تھا۔ نیب کی تحقیقات مالی فوائد حاصل کرنے، وسائل کے غلط استعمال اور عوامی اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی کے الزامات پر مرکوز ہیں۔
تازہ ترین پیشرفت میں نیب نے سوالنامہ جاری کرتے ہوئے ڈویلپر سے منصوبے کا سارا ریکارڈ طلب کیا ہے جس میں پلاٹوں کے سائز، تعداد اور ان کے عوض حاصل کردہ رقم کی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔ پلاٹوں کی تخصیص کا طریقہ کار اور منصوبے کا ماسٹر پلان بھی جمع کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔