ساری دنیا مہنگائی سے پریشان لیکن سوئٹزرلینڈ بے فکر کیوں؟

543
How has Switzerland managed to contain inflation

اس وقت زیادہ تر ملکوں میں اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتیں اور بلند شرح سود سب سے زیادہ زیربحث مسائل ہیں اور ایک لفظ بار بار سننے کو ملتا ہے اور وہ ہے مہنگائی یا افراطِ زر۔

لیکن دنیا کا ایک ملک ایسا بھی ہے جو باقی دنیا کی طرح مہنگائی سے کچھ خاص متاثر نہیں ہوا اور اس کی افراط زر کو قابو کرنے کی پالیسی بھی شاندار ہے۔

2022ء میں اس ملک میں کچھ چیزیں معمولی مہنگی ضرور ہوئیں اور مہنگائی کی شرح 29 سال کی بلند ترین سطح 3.5 فیصد پر پہنچی لیکن اس سے عام شہریوں کی زندگیوں پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا۔

ذرا اس کا موازنہ پاکستان سمیت اُن ملکوں سے کریں جہاں مہنگائی دوہرے ہندسہ میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکا میں افراطِ زر کی شرح 9 فیصد، یورو زون میں 11 فیصد اور برطانیہ میں 12 فیصد تک جا پہنچی ہے۔

پاکستان میں تو مہنگائی اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر یکم مارچ 2023ء کو 31.5 فیصد تک چلی گئی جبکہ ہفتہ وار مہنگائی رمضان شروع ہونے کے بعد 46 فیصد تک جا پہنچی۔

لیکن 3.5 فیصد مہنگائی بھی اُس ملک کے معیار کے مطابق بہت زیادہ ہے۔ وہاں لوگوں کو ایک خاص حد سے زیادہ قیمت پر چیزیں خریدے عرصہ ہو گیا ہے۔

یہ ملک ہے سوئٹزرلینڈ۔ جہاں چیزوں کی قیمتیں شاذونادر ہی بڑھتی ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا مہنگائی سے متاثر ہے۔ سوئس عوام مزے سے جی رہے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ میں مہنگائی نہ بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ چیزوں کی بنیادی قیمت (base price) عمومی طور پر زیادہ ہے۔ اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ بنیادی قیمت زیادہ ہے پھر تو چیزیں کافی مہنگی ہوں گی اور لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوں گی لیکن ایسا نہیں ہے۔

دراصل سوئٹزرلینڈ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے اور فی کس آمدن کے لحاظ سے امریکا، جاپان اور جرمنی سے آگے ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق امریکا میں فی کس آمدن تقریباََ 70 ہزار ڈالر، جاپان میں 39 ہزار ڈالر اور جرمنی میں 51 ہزار ڈالر ہے جبکہ سوئٹزرلینڈ میں فی کس آمدن 91 ہزار ڈالر ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 

امریکی ڈالر اتنا طاقت ور کیوں ہے؟

چھوٹا سا ملک جس کی لندن میں پراپرٹی ملکہ برطانیہ سے بھی زیادہ ہے

تقریباََ 87 لاکھ آبادی والے اس وسطی یورپی ملک کے زیادہ تر شہری امیر ہیں اور ان کی قوتِ خرید باقی ملکوں کے شہریوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اوسطاََ ہر سوئس نوجوان سات لاکھ ڈالر کا مالک ہے اور 41 ارب پتیوں کے ساتھ یہ ملک دنیا میں پندرہویں نمبر پر ہے۔

دولت کی فراوانی کی وجہ سے مصارفِ زندگی (cost of living) کافی بلند ہیں۔ 2022ء میں زیورخ اور جینیوا دنیا کے دس مہنگے ترین شہروں میں شمار کیے گئے۔ مہنگائی کی وجہ سے سنگاپور، نیویارک، ہانگ کانگ، لندن اور تل ابیب جیسے شہروں میں رہائشی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا، تاہم اس کے برعکس سوئس شہروں میں قیمتیں کافی حد تک مستحکم رہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوسطاََ آبادی کافی امیر ہے۔ لوگوں کو اپنے بجٹ کا زیادہ حصہ خوراک پر خرچ نہیں کرنا پڑتا بلکہ وہ سیروسیاحت اور دوسرے مشاغل پر زیادہ خرچ کرتے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ میں قیمتوں کے استحکام کی ایک وجہ مضبوط سوئس کرنسی بھی ہے۔ سوئس فرانک کی قدر امریکی ڈالر اور یورو کے برابر ہے۔ 2022ء میں پاکستانی روپے کی طرح کئی کمزور کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کافی اوپر گئی لیکن سوئس فرانک کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہی رہی۔

دراصل سوئس فرانک کی حیثیت محفوط پناہ گاہ (Safe haven) کی بھی ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں کے امیر ترین افراد کے اربوں ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں۔ یقیناََ آپ کو سوئس اکائونٹس یاد آئے ہوں گے۔

سوئس فرانک کی محفوظ پناہ گاہ والی حیثیت پہلی جنگ عظیم سے لے کر تقریباََ سو سال سے چلی آ رہی ہے اور ہر معاشی بحران کے دور میں اس کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا کی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں خاصی مضبوط ہے۔ کرنسی کا یہی استحکام مجموعی طور پر سوئس معیشت کو مضبوط رکھے ہوئے ہے جس کا زیادہ تر انحصار بین الاقوامی تجارت پر ہے۔

یہ ملک سالانہ تقریباََ تین سو ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ پاکستان کی درآمدات محض ساٹھ باسٹھ ارب ڈالر ہیں۔ ہم پھر بھی ہمیشہ کرنٹ اکائونٹ خسارے کا شکار رہتے ہیں اور ہماری درآمدات کرنسی کی بے قدرے کی وجہ سے مہنگی بھی ہیں۔

لیکن مضبوط سوئس فرانک کی وجہ سے سوئٹزرلینڈ کی درآمدات سستی ہیں۔ درآمدات پر انحصار اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ کچھ اشیاء کی مقامی سطح پر تیاری مہنگی ثابت ہوتی ہے۔

سوئٹزرلینڈ سالانہ تقریباََ پونے پانچ سو ارب ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔ اس کی برآمدات ہماری طرح پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل نہیں ہیں۔ بلکہ یہ بھاری مشینری، سونا، ادویات اور قیمتی گھڑیاں دوسرے ملکوں کو بیچتا ہے۔ یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جن کی قیمتوں میں اتار چڑھائو کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔

مضبوط سوئس فرانک کے پیچھے سونے کے بڑے ذخائر، بانڈز اور دیگر مالیاتی اثاثے بھی ہیں جو اس کا سہارا بنے ہوئے ہیں اور سوئس نیشنل بینک کو کرنسی مارکیٹ میں اتار چڑھائو کے دوران فرانک کی ویلیو مستحکم رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ کرنسی کی قدر نیچے نہیں گرتی تو ملک میں مہنگائی بھی نہیں ہوتی۔

ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے سوئٹزرلینڈ میں موجود سونے کے ذخائر کے علاوہ بھی اس ملک کے پاس تقریباََ ایک ہزار ٹن سے زیادہ سونا موجود ہے۔

کچھ بیرونی عوامل جن کی وجہ سے کسی ملک میں مہنگائی ہو سکتی ہے وہ سوئٹزرلینڈ پر کم سے کم اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسے کہ کورونا کے بعد عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث زیادہ تر ملکوں میں ایندھن مہنگا ہو گیا جس سے مصنوعات کے ترسیلی اخراجات میں اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر نتیجہ مہنگائی کے بڑھنے کی صورت میں نکلا۔

2022ء میں روس یوکرین جنگ کے بعد یورپ میں توانائی کی قیمتیں اوپر جانے کا اثر بھی سوئٹزرلینڈ پر نہیں ہوا کیونکہ یہ ملک توانائی میں خود کفیل ہے۔ یہاں تقریباََ 1500 جھیلیں اور کئی دریا ہیں اور اس کی ضرورت کی دس فیصد توانائی پن بجلی گھروں سے پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے تیل اور گیس کی ضرورت دیگر یورپی ملکوں کی نسبت کم ہے۔

زیادہ تر سوئس توانائی کمپنیاں حکومت کے ماتحت ہیں اور ان پر سخت سرکاری قوانین لاگو ہیں۔ اس لیے ہماری طرح آئے روز بجلی اور گیس مہنگی نہیں ہوتیں۔ نتیجتاََ صنعتوں کیلئے بجلی کے نرخ سالہا سال ایک ہی رہتے ہیں اور ان کی پیداواری لاگت نہ بڑھنے کی وجہ سے چیزیں مہنگی نہیں ہوتیں۔

سوئٹزرلینڈ ایک آزاد ملک ہے۔ یہاں کاروبار سے لے کر ہر قسم کی آزادی ہے۔ البتہ کچھ شعبوں پر قیمتوں کے حوالے سے سخت سرکاری کنٹرول ہے جیسا کہ خوراک، توانائی اور رہائش وغیرہ۔

لیکن ان سب باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ سوئٹزرلینڈ میں مہنگائی سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ ہوتی ہے لیکن مختصر دورانیے کیلئے۔

مثال کے طور پر 2022ء کے اختتام پر سوئٹزرلینڈ میں توانائی کی قیمتوں میں 16 فیصد اضافہ ہوا لیکن پھر بھی یہ سوئس شہریوں کیلئے ناقابل برداشت نہیں تھا اور جرمنی، نیدرلینڈز، برطانیہ اور اٹلی کے مقابلے میں کم تھیں۔

سوئس حکام کے مطابق رواں سال توانائی کی قیمتوں میں 27 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے ایک گھر کا سالانہ بل اوسطاََ 12 سو فرانک سے اوپر جا سکتا ہے لیکن حکومت کہتی ہے کہ یہ جھٹکا مختصر مدت کیلئے ہو گا۔

توانائی کی طرح مصنوعات اور خدمات کی قیمتوں پر بھی حکومت کا سخت کنٹرول ہے جس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں راتوں رات نہیں بڑھتیں۔ زرعی مصنوعات کی درآمد پر بھاری محصولات لاگو ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مقامی زرعی پیداوار ناصرف ملکی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہے بلکہ زرعی مصنوعات برآمد کر کے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی کمایا جا رہا ہے۔

سوئس شہری مقامی یا یورپی مصنوعات خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ مقامی کسانوں، صنعت کاروں اور ملکی معیشت کا فائدہ ہو۔ مقامی مصنوعات چھوڑ کر درآمدی مصنوعات خریدنے والا احساس کمتری سوئس لوگوں میں نہیں ہے۔ درآمدی چیزیں ان کی ترجیح میں تب آتی ہیں جب مقامی یا یورپی چیز نہ ملے۔

دسمبر 2022ء میں امریکا میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں 12 فیصد، برطانیہ میں 17 فیصد اور جرمنی میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ سوئٹزرلینڈ میں بھی اشیائے خورونوش کی قیمتیں 4 فیصد تک بڑھیں لیکن اس سے شہریوں کے بجٹ پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔

سوئس مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ 2023ء میں مہنگائی کی شرح 2.4 فیصد تک کم ہونے کی توقع ہے جبکہ آئندہ سال یہ مزید کم ہو کر 1.8 فیصد پر آ جائے گی۔ یقیناََ پاکستان جیسے ملکوں کو سوئٹزرلینڈ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here