پاکستان کے بینکنگ نظام میں اصلاحات کے ایک نئے باب کا آغاز ہو رہا ہے جو ڈیجیٹل پاکستان کی حکمت عملی اور فنانشل سیکٹر میں اصلاحات کے وسیع تر تناظر میں قابلِ تعریف ہے۔
دراصل ڈیجیٹل بینکنگ اور ای کامرس مجموعی ڈیجیٹل حکمت عملی کے ہی دو حصے ہیں۔ ہمیں وہ مقصد نہیں بھولنا چاہیے جس کیلئے سٹیٹ بینک ڈیجیٹل بینکنگ کو فروغ دے رہا ہے اور وہ ہے پاکستان کی پائیدار ترقی کے حصول کیلئے زیادہ سے زیادہ مالیاتی شمولیت (financial inclusion) کو یقینی بنانا۔ یعنی زیادہ سے زیادہ آبادی کو مالیاتی نظام تک آسان ترین رسائی دینا۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ ڈیجیٹل بینکنگ کے اصل مقصد کو سمجھا جائے۔ یاد رکھیں کہ بینکنگ سیکٹر کی کارکردگی کو مجموعی مائیکرو اکنامک ماحول سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جب مائیکرواکنامک اکانومی بہتر ہوتی ہے، انتظامی معاملات درست ہوتے ہیں، گورننس مستحکم ہوتی ہے تو بینکنگ سیکٹر بھی اچھی کارکردگی دکھاتا ہے۔
تاہم موجودہ غیریقینی صورت حال میں بینکوں سے اچھے کی توقع رکھنا ناانصافی ہو گی۔
نوے کی دہائی میں پہلی بار بینکنگ ریفارمز کا آغاز ہوا۔ 2000ء کے بعد یہ عمل مزید تیز کیا گیا اور آزاد مالیاتی نظام، قومیائے گئے تجارتی بینکوں کی نجکاری، سٹیٹ بینک کی خودمختاری، مالیاتی مصنوعات کی قیمت اور قرضوں کی تخصیص کیلئے مارکیٹ کی حرکیات پر انحصار کے علاوہ کارپوریٹ اور صنعتی ڈھانچے کی تنظیم نو کے ذریعے غیر فعال قرضوں کی وصولی کو تیز کیا گیا۔
بینکوں میں تین چار درجے کے انتظامی ڈھانچے پر مبنی کارپوریٹ گورننس کا نظام نافذ کیا گیا۔ سی ای اوز میرٹ پر لگائے گئے تاکہ شوقیہ بینکرز کی جگہ باقی نہ رہے۔ متعدد بینکوں کو کاروبار سمیٹنے یا ضم کرنے کے لیے کہا گیا۔ بدعنوان بورڈز ختم کیے گئے جس سے بدعنوانی کا دروازہ بند ہو گیا۔ دیگر اصلاحات بھی کی گئیں۔
یہ اصلاحات کا پہلا دور تھا۔ نتیجتاََ 80 فیصد بینک نجکاری کے عمل سے گزر کر سرکاری سبسڈی پر انحصار کرنے کی بجائے منافع بخش بن گئے۔ انسانی وسائل کا معیار بلند ہوا۔ بینکوں کے روزمرہ امور ٹیکنالوجی پر منتقل ہو گئے۔ مالیاتی کارکردگی کے اعشاریہ اوپر گئے اور نان پرفارمنگ لونز کم ہو گئے۔ گزشتہ سال انہی بینکوں نے 200 ارب روپے کارپوریٹ ٹیکس ادا کیا۔
لیکن میں ان تمام کامیابیوں کے باوجود مطمئن نہیں۔ کئی مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔ ان منافع بخش نجی بینکوں کی رسائی محض کارپوریٹ اداروں، بڑے ناموں اور تجارتی قرضوں تک محدود ہے۔ انہوں نے چھوٹے کاروباروں، زراعت، سستی رہائش، ذاتی یا صارفی مالیاتی امداد جیسے محروم شعبوں کو قرضوں کی سہولت نہیں دی۔ پسماندہ علاقوں میں بھی ان کا کردار پیسہ دینے کی بجائے پیسہ لینے تک محدود رہا۔
تاہم کچھ عرصہ بعد مذکورہ شعبوں کو قرضے دینے کیلئے قوانین میں ترمیم کی گئی۔ کسی کا مذہبی نکتہ نظر بینکوں کے ساتھ لین دین کی راہ میں رکاوٹ تھا تو اسلامی بینکاری متعارف کرائی گئی اور چھوٹی کاروباروں کی داد رسی کیلئے مائیکروفنانس بینک بھی قائم کیے گئے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان مائیکروفنانس بینکوں کو چلانے والا دنیا کا پہلا مرکزی بینک ہے۔ گو کہ ہمیں اس سے باز رہنے کو کہا گیا لیکن اَب ساری دنیا مائیکروفنانس ادارے چلا رہی رہے۔ اس اقدام سے اُن لوگوں کو بھی مالیاتی نظام تک رسائی مل گئی جو پہلے اس سے باہر تھے۔
یہ بھی پڑھیے:
ایک ہفتے میں دوسرا امریکی بینک بند ہو گیا
ڈیجیٹل پاکستان: گھر بیٹھے شناختی کارڈ بنوانے کیلئے نادرا کی موبائل ایپ تیار
کاروبار میں دلچسپی رکھنے والی خواتین کی مدد کیلئے مائیکرو فنانسنگ شروع کی گئی۔ عالمی اداروں کے اشتراک سے ڈویلپمنٹ فنانس انسٹی ٹیوشنز بنائے گئے لیکن وہ کاروباری خواتین بڑے شہروں تک ہی محدود رہیں۔ قصبات اور دیہات تک نہیں پہنچیں جس کی وجہ سے مائیکروفنانس کے ثمرات آبادی کے زیادہ محروم طقبے تک نہیں پہنچ سکے۔
ایک وقت پر نجی قرضوں کا 17 فیصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو دیا جاتا تھا جو اَب محض 7 فیصد رہ گیا ہے کیونکہ گزشتہ دو عشروں میں زیادہ تر قرضے حکومت لے رہی ہے۔
پاکستان کی معیشت کے لحاظ سے بینکنگ سیکٹر کافی چھوٹا ہے۔ ڈپوزٹس کی شرح 50 فیصد سے کم ہے اور وہ بھی زیادہ تر گورنمنٹ سکیورٹیز میں ہیں۔ صارف اکائونٹس کی تعداد بھی کم ہے۔ طلب کے باوجود زرعی قرضے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
فنانشل مارکیٹ ڈویلپمنٹ، مالیاتی اثاثے، نجی قرضے، انشورنس اور کیپٹل مارکیٹ کی ترقی کے حوالے سے پاکستان ہمسایہ ملکوں سے پیچھے ہے۔
تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق صرف 21 فیصد پاکستانیوں کے بینک اکائونٹس ہیں جبکہ بھارت میں یہ شرح 78 فیصد اور بنگلہ دیش میں 53 فیصد ہے۔ پاکستان کا ڈپوزٹس ٹو جی ڈی پی تناسب بھی کم ہے اور قومی بچت کی شرح 15 فیصد سے اوپر کبھی گئی ہی نہیں۔ اس میں بھی 5 یا 6 فیصد حصہ اوورسیز پاکستانیوں کا ہے۔ باقی پورے ملک کا حصہ 10 فیصد سے بھی کم ہے۔
ترقی کیلئے سرمایہ کاری کی شرح 20 فیصد ہونی چاہیے لیکن اتنی کم بچت کے ساتھ یہ حاصل نہیں کی جا سکتی۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں ملکی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضہ لینا ہی پڑتا ہے۔ برآمدات کا 85 فیصد بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں نکل جاتا ہے۔
بینکاری نظام کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچتوں کو کام میں لائے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خسارہ کم کرے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتے رہیں گے۔
فروری 2001ء میں انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز سے خطاب کے دوران میں نے کہا تھا ’’ہمیں ای بینکنگ کو ناصرف ایک ٹیکنالوجیکل مسئلہ کے طور پر بلکہ قابلِ عمل بزنس کے طور پر دیکھنا ہو گا کیونکہ انٹرنیٹ صارفین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سٹیٹ بینک اور حکومت کا کردار سہولت کار اور مسائل حل کرنے والے کا ہو سکتا ہے لیکن خود بینکوں کو جلد یا بدیر ای کامرس کے فوائد سمیٹنے کیلئے تیار ہونا پڑے گا۔‘‘
الیکٹرانک ٹرانزیکشنز آرڈیننس 2000ء میں نافذ ہوا جس سے ڈیجیٹل دستاویزات اور دستخطوں کو قانونی حیثیت مل گئی۔ تجارتی بینکوں کو انٹرنیٹ مرچنٹ اکائونٹ کھولنے کی اجازت بھی حاصل ہو گئی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان سوئفٹ (SWIFT) کے ساتھ منسلک ہو گیا اور بینکوں کیلئے بھی بین الاقوامی ادائیگیاں سوئفٹ کے ذریعے کرنا لازم قرار دیا گیا۔
سٹیٹ بینک نے دوسرا بڑا کام یہ کیا کہ سارے نظام کی کمپیوٹرائزیشن کر دی۔ اس پر تین کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔ تمام امور کو خودکار نظام کے تحت کر دیا۔ ڈیٹا سینٹر بنایا گیا اور بینکوں کے ساتھ برقی رابطے قائم کیے گئے۔ اُسی وقت رئیل ٹائم گراس سیٹلمنٹ سسٹم، جو اَب PRISM کہلاتا ہے، قائم کیا گیا تاکہ ہول سیل ترسیلات اور فنڈز کی سیٹلمنٹ کیلئے پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکے۔
2002ء تک 40 فیصد بینکوں کی شاخیں خودکار ہو چکی تھیں اور محض تین سال کے عرصہ میں 1336 شاخوں کو آن لائن کر دیا گیا۔
اسی طرح گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ای بینکنگ کی ترقی متاثرکن رہی ہے جس کیلئے مرکزی بینک کی تعریف کی جانی چاہیے۔ مجموعی ریٹیل ادائیگیوں میں ای بینکنگ کا حصہ 34 فیصد سے بڑھ کر 42 فیصد ہو گیا ہے۔
لیکن پھر بھی کاغذی ادائیگیوں کا حصہ 190 کھرب روپے مالیت کے ساتھ سب سے زیادہ ہے۔ ڈیجیٹل بینکوں کو یہی حصہ حاصل کرنا ہے اور آئندہ پانچ سالوں میں ای بینکنگ کا حصہ 80 سے 90 فیصد تک لے جانا ہو گا۔
گزشتہ دس سالوں میں زیرگردش کرنسی کی تعداد دُگنی ہو چکی ہے۔ پاکستان کی 25 فیصد آبادی کو انٹرنیٹ میسر ہے لیکن انٹرنیٹ بینکنگ صارفین کی تعداد محض 80 لاکھ اور موبائل بینکنگ صارفین کی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ ہے یعنی صرف 30 فیصد ہے۔
اس میں سے بھی 80 فیصد موبائل بینکنگ صارفین پانچ بینکوں کے پاس ہیں البتہ پاکستان میں سمارٹ فون اور انٹرنیٹ صارفین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد ڈیجیٹل بینکوں کی ترقی کا نادر موقع ضرور ہے۔
سٹیٹ بینک نے حال ہی میں پانچ بینکوں کو ڈیجیٹل لائسنس جاری کیے ہیں۔ یہ لمبے سفر کے آغاز میں درست سمت میں اٹھایا گیا پہلا قدم ہے۔
اب اصل امتحان اُن ڈیجیٹل بینکوں کا ہے کیونکہ ریگولیٹرز اور عوام کی توقعات کافی بلند ہیں۔ انہیں دو کام کرنا ہوں گے۔
پہلا: ادائیگیوں اور خدمات پر فیس دوسرے بینکوں سے کم کرنا ہو گی۔ ترسیلات تیز رفتار، محفوظ اور درست کرنا ہوں گی۔ سائبر سکیورٹی یقینی بنانا ہو گی۔ یعنی یہ ڈیجیٹل بینک سستے میں بہترین اور معیاری خدمات فراہم کریں۔
دوسرا: انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اثاثوں کو مختلف شعبوں، زمینی حقائق، حجم اور صنف کے لحاظ سے متنوع بنائیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن سیکٹرز کو اصل میں قرضہ چاہیے اُن کے اعدادوشمار کی تصدیق کرنے کیلئے بینکوں کے پاس کوئی طریقہ نہیں۔ تاہم ڈیجیٹل مشین لرننگ اور ڈیٹا اینالیٹکس کے ذریعے کریڈٹ سکورنگ ماڈل تیار کیا جا سکتا جس کیلئے بہت زیادہ دستاویزات یا گارنٹی کی ضرورت نہیں ہو گی۔ یہ طویل المدتی سرمایہ کاری ہے جس کے ثمرات ڈیجیٹل بینکوں کو کچھ سالوں بعد ملیں گے۔
ایک تجویز یہ ہے کہ ڈیجیٹل بینکوں کو چاہیے کہ وہ اپنا سرمایہ کاری پورٹ فولیو ایس ایم ایز تک محدود رکھنے کی بجائے غیر رسمی معاشی اور سماجی سرگرمیوں تک بھی بڑھائیں۔ جیسا کہ قرضِ حسنہ کے ذریعے انسانی ترقی، طلباء کیلئے وظائف کا آغاز وغیرہ۔
بینکوں کو چاہیے کہ وہ دور دراز علاقوں میں تعلیم و صحت کی سہولیات اور زرعی کاروبار کیلئے آسان قرضے دیں۔
بینکوں کو فِن ٹیک کمپنیوں کیساتھ تعاون بڑھانا چاہیے۔ یہ کمپنیاں بینکوں کی سپلائی چین کی ڈیجیٹائزیشن میں بھی مدد کر سکتی ہیں۔
ڈیجیٹل بینکوں کو غیرمتوقع مسائل اور مشکلات برداشت کرنے کیلئے مالیاتی طور پر مضبوط بننا ہو گا۔ ایسے انسانی وسائل پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی جو مسائل کا تیز ترین حل ڈھونڈ سکیں۔ ٹیکنالوجی اور کاروباری ماہرین کے درمیان توازان قائم کر کے ایک نیا اور مختلف ماحول پروان چڑھانا ہو گا۔
ڈیجیٹل بینکوں کو ہر لمحہ بدلتی ٹیکنالوجی اور جدت کو اپنانے کیلئے تیار رہنا ہو گا۔ غیرملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک، سافٹ وئیرز، ایپلی کیشنز اور دیگر چیزوں کے درست اور کارآمد استعمال کے حوالے سے کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن ٹیکنالوجی کو اپنانے میں کریڈٹ رِسک سمیت کچھ خطرات بھی مضمر ہیں۔ سائبر سیکیورٹی کو یقینی بنانا، فراڈ کو روکنا، صارفین کی شناخت کی چوری، ڈیٹا بیس کی ہیکنگ اور ناقص انٹرفیس جو کسٹمرز کو طویل انتظار کرائے۔ ان تمام مسائل کو حل کرنا ازحد ضروری ہو گا۔ یہ وہ مسائل ہیں جو بینکوں کے سربراہان محض جونئیر سٹاف پر نہیں چھوڑ سکتے۔