ڈاکٹر امر بوس: ’سپیکرز کی آواز پسند نہ آئی تو اپنا آڈیو سسٹم ایجاد کرکے دنیا کی سماعتوں کو تسخیر کر لیا‘

747
amar-g-bose-acoustic-engineer-and-inventor-who-changed-our-taste-of-music

برطانوی ہندوستان میں تین بوس مشہور ہوئے۔ دو کچھ زیادہ اور ایک قدرے کم۔

پہلے تھے مشہور انقلابی رہنما سوبھاش چندرا بوس جنہوں آزاد ہند فوج بنائی اور انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کیلئے ہٹلر سے اتحاد کر لیا۔

دوسرے تھے ستیندرا ناتھ بوس جنہوں نے فزکس اور کوانٹم مکینکس میں نام پیدا کیا۔

اور

تیسرے تھے نونی گوپال بوس۔

یہ بنگال کے سیاسی رہنما اور سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ اپنی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے انگریزوں کے زیرِ عتاب رہے اور جیل بھی گئے۔ 1920ء کی دہائی میں جان بچا کر امریکا جا پہنچے اور فلاڈیفیا میں قیام پذیر ہوئے۔ یہاں انہوں نے ایک سکول ٹیچر شارلیٹ میکلین سے شادی کر لی۔

2 نومبر 1929ء کو اس جوڑے کے ہاں امر گوپال بوس نے جنم لیا جنہوں نے آگے چل کر سٹیریو سپیکر ایجاد کیے اور دنیا کا میوزک سننے کا انداز بدل ڈالا۔

امر گوپال بوس کی انٹرپرینیورل سکلز اور الیکٹرونکس میں دلچسپی کے بارے میں والدین کو تب معلوم ہوا جب وہ 13 سال کے تھے اور انہوں نے خاندان کی آمدن میں اضافے کیلئے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر پرانے ریڈیو مرمت کرنا شروع کیے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا اور معاشی مسائل کی وجہ سے ہر خاندان کو اضافی آمدن کیلئے اضافی کام کرنا پڑتا تھا۔

1950ء میں ایم آئی ٹی سے الیکٹریکل انجنیئرنگ میں گریجوایشن کے بعد امر بوس ہالینڈ چلے گئے جہاں انہوں نے ایک سال تک فلپس الیکٹرونکس میں آڈیو سسٹمز پر کام کیا۔

ایک سال بعد وہ ایم آئی ٹی واپس چلے گئے اور پی ایچ ڈی کیلئے نان لینیئر سسٹمز پر تھیسز لکھنا شروع کر دیا۔ اس دوران ایک سال کیلئے بطورِ فل برائٹ سکالر انڈیا میں بھی رہے۔ پی ایچ ڈی مکمل ہونے پر ایم آئی ٹی نے انہیں اسسٹنٹ پروفیسر بنا دیا۔

1956ء میں امر بوس کی زندگی میں انقلابی موڑ تب آیا جب انہوں نے ایک بظاہر اعلیٰ معیار کا سپیکر سسٹم خریدا لیکن اس کی لائیو پرفارمنس نے انہیں خاصا مایوس کیا۔ انہوں نے سپیکر ٹیکنالوجی اور سائونڈ سسٹمز میں پائی جانے والی خامیوں کے حوالے سے ریسرچ شروع کر دی اور بالآخر ایک ایسا سٹیریو سپیکر بنانے میں کامیاب ہو گئے جو کسی بھی جگہ ریفلیکٹ سائونڈ ایفیکٹ پیدا کر سکتا تھا۔ اس سے پہلے کسی کمپنی کے سپیکر سسٹم میں ایسا سائونڈ ایفیکٹ موجود نہیں تھا۔

بعد ازاں یہی بہترین سائونڈ ایفکیٹ 1964ء میں قائم ہونے والی بوس کارپوریشن کا ہال مارک بن گیا۔

جلد ہی بوس کارپوریشن کو ناسا اور امریکی فوج سے آڈیو کمیونیکیشن سسٹمز اور لائوڈ سپیکرز ڈیزائن کیلئے آرڈرز ملنے لگے اور یہ بڑی کمپنی بننے کی راہ پر گامزن ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیے: 

کار مکینک کا بیٹا جس نے ایپل کی بنیاد رکھی 

31 جاب انٹرویوز میں ناکام رہنے والے شخص نے اربوں ڈالر کی علی بابا کیسے بنائی؟

ڈاکٹر امر بوس نے جو کام سب سے بہترین کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے کمپنی کی سیلز اور دیگر ذرائع سے ہونے والی ساری آمدن کو ریسرچ اور ڈویلپمنٹ میں لگا دیا اور کسی کو بھی شئیر ہولڈر کے طور پر کمپنی میں شامل نہیں کیا۔

اس کی دو وجوہات تھیں: پہلی یہ کہ کمپنی کے چھوٹے موٹے فیصلوں کیلئے بھی شئیر ہولڈرز سے پوچھنا پڑتا ہے۔

اور دوسری یہ کہ اکثر شئیر ہولڈرز ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کی بجائے بزنس ایکسپینشن (expansion) پر زیادہ سے زیادہ انویسٹ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

لیکن 2004ء میں ڈاکٹر بوس نے پاپولر سائنس نامی جریدے کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ اس بزنس میں پیسہ بنانے نہیں بلکہ ایسی دلچسپ چیزیں بنانے آئے تھے جو پہلے کسی نہیں نہیں بنائیں۔

آج بوس کے آڈیو سسٹم مرسیڈیز جیسی لگژری کاروں سے لے کر لاس اینجلس کے سٹیپلز سینٹر، ویٹی کن سٹی کے سِسٹائن چیپل اور خانہ کعبہ سمیت دنیا کے بڑے بڑے سٹیڈیمز، کنسرٹ ہالز اور عبادت گاہوں میں نصب ہیں۔

کئی ملکوں کی افواج، ائیرلائنز کے پائلٹس اور ناسا کے خلا باز بوس کے noise cancelling ہیڈفون استعمال کرتے ہیں۔

بوس کارپوریشن کی سالانہ سیلز تین ارب ڈالر سے زائد ہیں اور اس میں سات ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔

2011ء میں ڈاکٹر امر بوس نے بوس کارپوریشن کے اکثریتی شئیرز اپنی مادرِ علمی ایم آئی ٹی کو اِس شرط پر عطیہ کر دیے کہ یونیورسٹی کمپنی کی خود مختاری قائم رکھتے ہوئے اس کے شئیرز کسی کو فروخت نہیں کرے  گی اور کمپنی کی پروڈکٹس سے حاصل ہونے والی ساری آمدن سائونڈ سسٹمز، سپیکرز اور آڈیولوجی (audiology) کے حوالے سے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ میں خرچ کرے گی۔

ڈاکٹر امر بوس 2001ء تک ایم آئی ٹی میں پڑھاتے رہے۔ 1989ء میں یونیورسٹی نے اُن کے نام پر بوس ایوارڈ فار ایکسی لینس اِن ٹیچنگ کا اجراء کیا۔

1994ء میں برکلے کالج  آف میوزک نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ 2008ء میں انہیں امریکا کے نیشنل اِن وینٹرز (inventors) ہال آف فیم میں شامل کیا گیا اور 2011ء میں ایم آئی ٹی نے دنیا کے 150 انوویٹرز (innovators) کی فہرست میں 9ویں نمبر پر رکھا۔

امر بوس 12 جولائی 2013 کو 83 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انہوں نے دنیا کو دکھایا کہ کس طرح ریسرچ پر سرمایہ کاری عالمی سطح کی کارپوریشن کو جنم دے سکتی ہے اور سائنس کیسے زندگیاں بدل سکتی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here