27 مارچ 1863ء کو برطانیہ کی کائونٹی کیمبرج شائر کے ایک چھوٹے سے قصبے میں فریڈرک ہینری رائس (Frederick Henry Royce) پیدا ہوئے جنہوں نے آگے چل کر لگژری کاریں اور جہازوں کے انجن بنانے والی کمپنی رولز رائس کی بنیاد رکھی۔
ہینری رائس کے والد جیمز رائس ویسے تو اپنے قصبے میں آٹے کی چکی چلاتے تھے لیکن اچانک کاروبار بند ہو گیا تو وہ لندن شفٹ ہو گئے۔
مالی تنگ دستی گھر میں پہلے سے ہی ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھی۔ اس پر قیامت یہ ٹوٹی کہ ہینری رائس جب 9 سال کے تھے تو ان کے والد گزر گئے۔ والد کے گزر جانے کے بعد ذمہ داریوں کا بوجھ تھا اور نوعمر ہینری رائس تھے۔ ایک سال کے اندر ہی سکول چھوٹ گیا۔
دال روٹی کمانے کیلئے کم عمر رائس اخبار بیچنا پڑے اور ٹیلی گرام بوائے کا کام کرنا پڑا۔
پھر 1878ء میں ان کی زندگی نے پہلا موڑ لیا جس کا راستہ آگے چل کر کامیابی کی جانب مڑ گیا۔
ہوا یہ کہ رائس کی ایک رشتہ دار خاتون نے کچھ پیسے دے کر ان کا داخلہ برٹش ریلوے کی اپرنٹس شپ (apprenticeship) میں کروا دیا۔
یہاں ہینری رائس دن کو ریلوے انجنئیرز سے کام سیکھتے اور شام کو الیکٹریکل انجنئرنگ کی کلاسیں لیتے۔ اس محنت شاقہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ڈیڑھ سال بعد انہیں نجی کمپنی میں سٹریٹ لائٹس اور تھیٹر لائٹس بنانے کی نوکری مل گئی۔
پانچ سال بعد رائس نے اپنے ریلوے کے انجنیئر دوست ارنیسٹ کلئیر مونٹ کو ساتھ ملا کر الیکٹرک فٹنگز کی کمپنی کھول لی اور اس کا نام رکھا ایف ایچ رائس اینڈ کمپنی۔
یہ کمپنی چل نکلی اور برقی سازوسامان بناتے بناتے اگلے دس سالوں میں جنریٹر اور کریںیں بنانے کے قابل ہو گئی۔ اسے رائس لمیٹڈ کے نام سے رجسٹر کروایا گیا۔
یہ بھی پڑھیے:
کار مکینک کا بیٹا جس نے ایپل کی بنیاد رکھی
کسان کا بیٹا جس کی بنائی ایک کار نے دنیا بدل کر رکھ دی
اُن دِنوں کرینوں کی مارکیٹ اس لیے بھی کافی اوپر جا رہی تھی کیونکہ جنوبی افریقہ میں سونے کے ذخائر دریافت ہو چکے تھے اور تاج برطانیہ سونے کی یہ کانیں ہتھیانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔
11 اکتوبر 1899ء کو سونے کی کانوں پر تنازع بڑھتا ہوا جنگ میں بدل گیا۔ جسے سیکنڈ اینگلو بوائر وار کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ تین سال چلی۔
رائس لمیٹڈ کو جنگ کی وجہ سے نقصان یہ ہوا کہ کرینوں کی مارکیٹ گر گئی۔ تب تک جرمن اور امریکی کمپنیاں بھی مقابلے میں آ چکی تھیں۔
اس لیے مسٹر رائس نے سوچا کیوں نہ کار سازی میں قسمت آزمائی کی جائے۔ انجنیئر تو وہ تھے ہی۔ بے شک سکول ایک سال ہی گئے تھے۔
مسٹر رائس کی زندگی میں دوسرا خوشگوار موڑ آیا سن 1903ء میں۔
انہوں نے اپنے زمانے کی مشہور فرانسیسی کمپنی Decauville سے فور سلنڈر انجن والی کار منگوائی لیکن چلانے پر وہ گاڑی انہیں متاثر نہ کر سکی۔
مسٹر رائس گاڑی اپنی فیکٹری میں لے گئے اور پہلے اپنی پسند کا ٹو سلنڈر انجن بنایا، انجن بن گیا تو اسے Decauville کار میں فٹ کر دیا اور اس گاڑی کا نام رکھا “رائس 10 ایچ پی”
اس کے بعد مسٹر رائس نے دو اور کاریں بھی بنائیں۔ ایک اپنے دوست ایرنیسٹ کلئیرمونٹ کیلئے اور دوسری رائس کمپنی کے شئیر ہولڈر ہینری ایڈمنڈز (Henry Edmunds) کیلئے۔
ابھی تک آپ نے کہانی سنی ہے مسٹر رائس (Royce) کی تاہم اب آپ کو ملواتے ہیں مسٹر رولز (Rolls) سے۔ دونوں کو ملائیں تو بنتی ہے رولز رائس (Rolls-Royce)۔
مسٹر رولز خاندانی امیر تھے اور برطانوی شاہی خاندان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی تھا۔ یہ لندن میں امپورٹڈ کاروں کا شوروم چلاتے تھے۔
اتفاق سے مسٹر ایڈمنڈز جو کہ رائس کمپنی میں شئیر ہولڈر تھے، وہ مسٹر رولز کے دوست نکلے۔ انہوں نے ہی 4 مئی 1904ء کو مانچسٹر کے مڈلینڈ ہوٹل میں رولز اور رائس کی پہلی ملاقات کروائی۔
مسٹر رولز اَب تک امریکی اور جرمن کاریں ہی بیچ رہے تھے۔ وہ بھی تھری یا فور سلنڈر انجن والی۔ لیکن جب مسٹر رائس نے انہیں ٹو سلنڈر رائس 10 ایچ پی دکھائی تو مسٹر رولز نے پہلی ہی ڈرائیو پر قبولیت کی سند عطا کر دی۔
23 دسمبر 1904ء کو رائس لمیٹڈ کا نام رکھ دیا گیا رولز رائس موٹر کار کمپنی۔ اَب مسٹر رائس نے کمپنی کا تکنیکی شعبہ سنبھال لیا اور مسٹر رولز نے مالیاتی شعبہ۔
اس اشتراک کا پہلا نتیجہ نکلا 1907ء میں۔ جب رولز رائس کو پہلے “قابل اعتبار انجنیئرنگ ایوارڈ” (engineering reliability) سے نوازا گیا۔
لیکن 1910ء میں ایسا سانحہ رونما ہوا جس نے کمپنی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ دراصل مسٹر رولز کو ہوابازی کا جنون کی حد تک شوق تھا اور وہ برطانیہ کے اولین ہوابازوں میں سے تھے۔
12 جولائی 1910 کو ہوابازی کے ایک مقابلے میں حصہ لیتے ہوئے ان کے رائٹ فلائیر (Wright flyer) ائیر کرافٹ کو حادثہ پیش آ گیا جس کے نتیجے میں مسٹر رولز کی موت ہو گئی۔ یہ ائیر کریش میں مرنے والے پہلے برطانوی شہری تھے اور اُس وقت ان کی عمر محض 32 سال تھی۔
پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو رولز رائس کمپنی نے جنگی جہازوں کے انجن بنانا شروع کر دیے اور “دی ایگل” کے نام سے پہلا انجن متعارف کرایا۔ جنگ چار سال چلی۔ اس دوران اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کیلئے آدھے انجن اسی کمپنی نے فراہم کیے۔
’’دی ایگل‘‘ کی وجہ سے پہلی بار بحر اوقیانوس کو اڑ کر پار کیا گیا اور برطانیہ سے آسٹریلیا تک پہلی براہ راست پرواز بھی اڑائی گئی۔
1911ء میں مسٹر رائس بیمار پڑ گئے کیونکہ وہ اپنی خوراک کا دھیان کم ہی رکھتے تھے۔ بیماری کی وجہ سے انہیں لندن سے دور ایک ساحلی قصبے میں منتقل ہونا پڑا۔
وہ انجنیئرز کی ٹیم کو ساتھ لے کر ساحل پر چلے جاتے اور ریت پر کاروں، انجنوں اور کرینوں کے سکیچ بناتے اور انجنئیرز نوٹس لیتیے رہتے۔
یہ بھی پڑھیے:
رولز رائس کاریں اتنی مہنگی کیوں ہوتی ہیں؟
غریب سائیکل مکینک کا بیٹا جس نے اربوں ڈالر کی ہونڈا کمپنی قائم کی
یوں ریت پر ہی انہوں نے آر انجن (R engine) کا سکیچ بنایا جو رولز رائس کمپنی نے 1928ء میں متعارف کرایا۔ اُس زمانے کا یہ بہترین انجن سمندری اور فضائی جہازوں میں استعمال ہوا اور ایک مقابلے کے دوران 400 میل فی گھنٹہ ائیر سپیڈ کا ورلڈ ریکارڈ بھی قائم کیا۔
1931ء میں رولز رائس نے اپنی حریف کار ساز فرم Bentley کو بھی خرید لیا۔
1933ء میں مسٹر رائس نے’’پی وی 12‘‘ انجن ڈیزائن کیا جو رولز رائس مارلن بھی کہلایا۔ اس انجن کا ٹیسٹ ان کی زندگی میں ہوا لیکن اس کا استعمال ان کی قسمت میں نہیں لکھا تھا۔
کیونکہ 22 اپریل 1933ء کو سر فریڈرک ہینری رائس 20 سالہ علالت کے بعد چل بسے۔
اپنی موت سے ایک رات قبل انہوں نے ایک خط کے لفافے پر سکیچ بنا کر اپنی نرس کو دیا اور اسے فوراََ ڈربی (Derby) میں رولز رائس فیکٹری میں بھیجنے کا حکم دیا لیکن جب تک یہ لفافہ فیکٹری میں پہنچتا مسٹر رائس اگلے جہان پہنچ چکے تھے۔
یہ سکیچ تھا ’’ایڈجسٹ ایبل شاک آبزرور‘‘ کا جو اُس زمانے میں رولز رائس کاروں کا امتیازی نشان بن گئے۔
’’رولز رائس مارلن‘‘ انجن دوسری جنگ عظیم میں شاہی فضائیہ کے جنگی طیاروں میں استعمال کیا گیا اور اسی انجن نے رولز رائس کو ہوابازی کی صنعت کی ایک بڑی کمپنی بھی بنا دیا۔ حتیٰ کہ بوئنگ اور لوک ہیڈ مارٹن جیسی کمپنیاں بھی رولز رائس سے انجن بنوانے لگیں۔
1971ء میں رولز رائس لمیٹڈ کو حکومت نے نیشنلائز کر لیا اور 73ء میں مذاکرات کے بعد اس کا آٹو بزنس واپس کر دیا جو کہ کمپنی نے 1980ء میں Vickers کو بیچ دیا۔
لیکن تب تک رولز رائس پہلی ایسی کمپنی بن چکی تھی جو زمین، فضا اور سمندر میں اپنی خدمات سر انجام دے رہی تھی یعنی اس کی بنائی ہوئی چیزیں تینوں جگہ موجود تھیں۔
1998ء میں وِکرز نے اسے فوکس ویگن (Volkswagon) کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ خریدوفروخت کی یہ کہانی کافی دلچسپ ہے کیونکہ بی ایم ڈبلیو بھی رولز رائس کی خریدار تھی لیکن اس نے بولی کم لگائی تھی۔ تاہم مکمل کمپنی کسی کے ہاتھ نہ لگی۔
اس لیے 1998ء سے 2003ء تک بی ایم ڈبلیو اور فاکس ویگن کے درمیان رولز رائس کو لے کر تنازعہ چلتا رہا۔ بالآخر 2003ء کے بعد سے بی ایم ڈبلیو ہی رولز رائس برانڈڈ گاڑیاں بنا رہی ہے۔