اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے چینی کی قیمتوں میں ریلیف دینے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاق کی اپیل نمٹاتے ہوئے شوگر ملز مالکان کو چینی کے سرکاری نرخ اور مارکیٹ پرائس میں فرق سے حاصل ہونے والی رقم نقد جمع کرانے کے حکم دے دیا۔
گزشتہ روز قائم مقام چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے معاملہ پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس عمر عطاء بندیال نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت نے شوگر ملز مالکان کو ساتھ ساتھ رقم جمع کرانے کا حکم دیا تھا، کیا شوگر ملز مالکان رقم جمع کرا رہے ہیں؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شوگر ملز مالکان کی جانب سے چیک جمع کرائے جا رہے ہیں، اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ شوگر ملز کو چیک کی بجائے نقد رقم جمع کرانے کا کہا تھا، چیک کی بجائے ان سے نقد پیسے لیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کا اطلاق سب پر ہو گا، ہم ملک میں صنعتوں کا فروغ چاہتے ہیں، ملک میں صنعتیں بڑھیں گی تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ کی شوگز ملز کو ایکس مل ریٹ پر چینی فروخت کرنے کی مشروط اجازت
عدالت عظمیٰ نے شوگر ملز مالکان کو چینی کے سرکاری نرخ اور مارکیٹ پرائس کے درمیان موجود فرق سے حاصل ہونے والی رقم نقد جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے وفاق کی جانب سے دائر اپیل نمٹا دی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 16 اگست 2021ء کو شوگر ملز کو چینی کی قیمتوں میں ریلیف دینے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف وفاق کی اپیل پر تحریری حکم نامے میں شوگر ملز کو مقرر کردہ ایکس مل ریٹ پر چینی فروخت کرنے کی مشروط اجازت دی تھی۔
اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے شوگر ملز مالکان کو چینی کے سرکاری نرخ اور مارکیٹ پرائس کے درمیان موجود فرق سے حاصل ہونے والی رقم رضا کارانہ طور پر ڈپٹی رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کے پاس جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے شوگر ملز کو چینی کی قیمتوں میں ریلیف دینے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف وفاق کی اپیل پر تحریری حکم نامے میں قرار دیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں چینی کی قیمت سے متعلق کیس زیر التوا ہے، ہائیکورٹ نے حکومت کی مقررہ کردہ چینی کی قیمت کیخلاف یکطرفہ حکم امتناع جاری کیا، قیمتوں اور نفع نقصان کا تعین کرنا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے قرار دیا گیا تھا کہ ہائیکورٹس کی قیمتوں کے معاملے میں مداخلت غیر متعلقہ حدود میں داخلے کے مترادف ہے، عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانونی تنازعات کو آئین اور قانون کے تناظر میں حل کیا کریں۔
عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائیکورٹ کو معاملہ واپس بھیجتے ہوئے تحریری حکم نامے میں عدالت عالیہ کو زیر التوا درخواستوں پر 15 روز میں فیصلہ کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔