طالبان نے افغانستان کے مرکزی بینک کا قائم مقام گورنر مقرر کر دیا

طالبان کے مقرر کردہ حاجی محمد ادریس نے مالی امور کے حوالے سے کوئی تربیت لی ہے نا ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں بلکہ مذہبی تعلیم یافتہ بھی نہیں، صرف مہارت کی وجہ سے ان پر اعتماد کیا گیا ہے، سینئر طالبان رہنماء

1258

اسلام آباد: طالبان نے حاجی محمد ادریس کو افغانستان کے مرکزی بینک ’دا افغانستان بینک‘ کا قائم مقام گورنر مقرر کر دیا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ حاجی محمد ادریس کو قائم مقام گورنر کے طور پر یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے ملک میں سرکاری اداروں اور بینکاری نظام کے معاملات کو منظم کرنے میں مدد کریں۔

ادھر برطانوی خبر رساں ادارے نے طالبان کے ایک سینئر رہنما کا حوالا دیتے ہوئے بتایا کہ ’حاجی محمد ادریس کا تعلق شمالی صوبے جوزجان سے ہے اور وہ طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کے ساتھ مالی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ حاجی ادریس کو تحریک طالبان کے باہر کوئی نہیں جانتا، انہوں نے مالی امور کے حوالے سے کوئی تربیت لی ہے نا ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں۔ یہاں تک کہ ’حاجی ادریس نے مذہبی تعلیم بھی حاصل نہیں کی لیکن وہ ہماری تحریک کے مالی امور کے سربراہ تھے اور مہارت کی وجہ سے ان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے: 

طالبان کے کنٹرول کے بعد پاک افغان تجارت میں نمایاں اضافہ

طالبان کی قومی خزانے تک رسائی روک دی گئی، عالمی امداد معطل، 9 ارب ڈالر منجمد  

طالبان کنٹرول کے بعد انڈیا افغانستان تجارت بند، مودی حکومت کو کتنے ارب ڈالر نقصان ہو گا؟

15 اگست کو دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد سے افغانستان کے زیادہ تر شہروں میں بینک بند ہیں اور سرکاری دفاتر خالی ہیں، طالبان نے تمام سرکاری ملازمین سے کہا ہے کہ وہ بلا خوف و خطر اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیں لیکن اس کے باوجود ملکی معیشت کو چلانے کیلئے طالبان کو مشکلات کا سامنا ہے۔

دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے افغانستان کو ملنے والی امداد پر یا تو شکوک و شبہات کے بادل منڈلا رہے ہیں یا پھر یہ امداد سرے سے معطل کی جا چکی ہے، گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف نے افغانستان کیلئے امداد عارضی طور پر روکنے کا اعلان کیا تھا جبکہ ورلڈ بینک کا کہنا تھا کہ ’افغان معیشت کا مستقبل اب مزید غیر یقینی کا شکار ہو گیا ہے۔‘

20 اگست کو ’دا افغانستان بینک‘ کے سربراہ اجمل احمدی نے کہا تھا کہ ’افغانستان میں حکومت پر تیزی سے قبضے کے باوجود طالبان کو ملک کے بیشتر نقد اور سونے کے ذخائر تک رسائی حاصل نہیں ہو گی۔‘

اجمل احمدی نے کہا تھا کہ ملک کے مرکزی بینک کے پاس تقریباََ 9 ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں لیکن اس میں سے زیادہ تر بیرون ملک بینکوں میں موجود ہیں جو طالبان کی پہنچ سے باہر ہیں۔

اجمل احمدی کا کہنا تھا کہ امریکہ کے فیڈرل ریزرو میں افغانستان کے 7 ارب ڈالر نقد اور 1.2 ارب ڈالر سونے کی صورت میں موجود ہیں جبکہ باقی رقم بینک آف انٹرنیشل سیٹلمنٹس سمیت دیگر اداروں کے اکاﺅنٹس میں موجود ہے۔ بین الاقوامی معیارات کے مطابق افغانستان کے زیادہ تر اثاثے محفوظ ہیں۔

19 اگست کو جوبائیڈن انتظامیہ نے بھی امریکی بینکوں میں موجود افغان حکومت کے ساڑھے 9 ارب ڈالر منجمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’امریکا میں افغان حکومت کے مرکزی بینک کا کوئی بھی اثاثہ طالبان کیلئے دستیاب نہیں ہو گا۔‘

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here