کابل، نئی دلی: دو دہائیوں بعد افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے بھارت سے تمام درآمدات اور برآمدات بند کرنے کا اعلان کیا ہے جس کی تصدیق فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشن (ایف آئی ای او) نے بھی کی ہے۔
فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اجے سہائے نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ’فی الحال طالبان نے پاکستان کے ٹرانزٹ روٹس کے ذریعے کارگو کی نقل و حرکت روک دی ہے، اس طرح بھارت سے درآمدات بند ہو گئی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بھارت نے افغانستان میں تقریباََ تین ارب ڈالر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور چار سو ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا ہے جن میں سے کچھ منصوبوں پر کام تاحال جاری ہیں، ہم افغانستان میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘
بھارت اور افغانستان کو تجارتی حجم
گزشتہ کچھ سالوں کے دوران بھارت کے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں قدرے گرم جوشی دیکھی گئی ہے، 2015ء سے 2020ء تک دونوں ملکوں کی تجارت میں 72 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
مالی سال 2019-20ء کے دوران بھارت اور افغانستان کے درمیان مجموعی تجارتی حجم 1.5 ارب ڈالر سے زائد رہا تھا، اُس سال بھارت نے افغانستان کو 99 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کی برآمدات کی تھیں جبکہ افغانستان نے بھارت کو 53 کروڑ ڈالر کی اشیاء برآمد کیں تھیں۔
یہ بھی پڑھیے: طالبان کے کنٹرول کے بعد پاک افغان تجارت میں نمایاں اضافہ
مالی سال 2020-21ء کے دوران دوطرفہ تجارت میں معمولی کمی کے بعد مجموعی حجم 1.4 ارب ڈالر رہا، اس دوران انڈیا نے افغانستان کو 82 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی برآمدات کیں جبکہ افغانستان نے 51 کروڑ ڈالر کی اشیاء بھارت کو فروخت کیں، بھارت سالانہ 85 فیصد خشک میوہ جات افغانستان سے درآمد کرتا ہے۔
سال 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کا آئینی تشخص تبدیل کرنے پر پاکستان نے ناصرف خود بھارت سے تجارت بند کر دی تھی بلکہ اسے افغانستان تک تجارتی راہداری کی سہولت استعمال کرنے سے بھی روک دیا تھا جو بعد ازاں بحال کر دی گئی، تاہم اس سے قبل 2017ء میں بھارت اور افغانستان نے تجارت کے متبادل روٹ کیلئے ائیر فریٹ کوریڈور قائم کیا تھا۔
ہوائی راستے سے افغانستان بادام، اخروٹ سمیت خشک میوہ جات، سیب، آڑو، چیری، قندھاری انار جیسے پھل اور ادویات میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں (زعفران و دیگر) بھارت کو برآمد کرتا ہے، تاہم کابل کی موجودہ صورت حال کی وجہ سے ان اشیاء کی بھارت کو برآمد رُک گئی ہے۔
بھارت کو کتنا نقصان ہو گا؟
کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز کا کہنا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال کے باعث بھارتی تاجروں کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑے گا اور مقامی مارکیٹوں میں افغانستان سے درآمد کی جانے والی اشیاء کے دام بھی بڑھ جائیں گے۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل اجے سہائے کا کہنا ہے کہ ’اگر افغانستان کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع نہیں ہوتی تو وہاں سے درآمد کردہ اشیاء کے موجودہ سٹاک کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جائیں گی اور ہمارے تاجروں کو مجبوراََ اس کی رسد کا متبادل انتظام کرنا پڑے گا۔‘
اجے سہائے کے خدشات کی تصدیق کرتے ہوئے نئی دہلی کی سب سے بڑی ڈرائی فروٹ مارکیٹ کھادی باوڑی (Khadi Bawari) کے ایک تاجر نے بتایا کہ ’تجارت بند ہونے کے اثرات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں، گزشتہ چند روز کے دوران مارکیٹ میں موجود افغانی اخروٹ، بادام، انجیر اور دیگر خشک میوہ جات کی قیمتیں دو سے تین گنا بڑھ چکی ہیں۔‘
دوسری جانب بھارت افغانستان کو زیادہ تر چائے، کافی، ہری اور سرخ مرچ، کپاس، کھلونے، جوتے اور روزمرہ استعمال کی دیگر چیزیں برآمد کرتا ہے، تاہم تجارت بند ہونے کے بعد ان مصنوعات کی برآمدات سے وابستہ تاجروں کے کاروباروں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔