’نئی آٹو پالیسی کا فوکس ”میڈ اِن پاکستان” پر ہے‘

ہم شاید پوری گاڑی بنا کر ایکسپورٹ نہ کر سکیں لیکن بین الاقوامی سطح پر آٹو پارٹس سیکٹر کی ویلیوچین کا حصہ ضرور بن سکتے ہیں، وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار

855

اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار نے کہا ہے کہ نئی آٹو پالیسی کا سارا فوکس ”میڈ اِن پاکستان” پر ہے۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کا گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کرنے کا مقصد گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ کرنا ہے۔ قیمت کم کرنے سے متوسط طبقہ، جو موٹر سائیکل سے بڑھ کر اَب چھوٹی گاڑی لینا چاہتا ہے، کو گاڑی خریدنے میں سہولت فراہم کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی گزشتہ جتنی بھی مینوفیکچرنگ ہوئی وہ 2016ء سے 2021ء کی آٹو پالیسی کے تحت ہوئی، اب نئی پالیسی جو ایک ماہ میں آ رہی ہے، اس کا سارا فوکس ”میڈ ان پاکستان” پر ہے، ہماری نئی پالیسی آٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پالیسی ہے، ہم شاید پوری گاڑی بنا کر ایکسپورٹ نہ کر سکیں لیکن بین الاقوامی سطح پر آٹو پارٹس سیکٹر کی ویلیوچین کا ضرور حصہ بن سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

حکومت کا گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کا اعلان، قیمتیں کتنی کم ہوں گی؟

ہنڈائی کی نئی سیڈان گاڑی کی پاکستان میں قیمت کتنی رکھی گئی ہے؟

خسرو بختیار نے کہا کہ ہم پالیسی کے تحت شرائط رکھ رہے ہیں کہ اگر کسی نے پاکستان کی مارکیٹ اور کنزیومر یا پاکستان کے فارن ایکسچینج کو استعمال کرنا ہے تو ایک شرح کے تحت ایکسپورٹ کرنا ہو گی، اس طرح ہم اس کو سلسلہ وار بڑھاتے جائیں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے ”میری گاڑی سکیم” کے تحت گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کم کیا، اس کے علاوہ ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹیز بھی کم کر دیں، ایک ہزار سی سی سے نیچے کی گاڑیوں پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی صفر جبکہ اس سے اوپر کی گاڑیوں پر اس کی شرح 7 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد کر دی۔

انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی بکنگ انوائس کی قیمت میں بھی کمی کی گئی ہے، اب اگر کسی نے نئی گاڑی کی بکنگ کروانی ہے تو اس کی قیمت کا صرف 20 فیصد ایڈوانس جمع کروانا ہو گا۔

وزیر صنعت و پیداور کا کہنا تھا کہ گزشتہ پالیسی کے تحت ہم مکمل طور پر تیار گاڑیاں ایک خاص تعداد کے مطابق ملک میں درآمد کر رہے تھے، اب وہ پالیسی 30 جون 2021ء کو ختم ہو چکی ہے، نئی پالیسی کے تحت گزشتہ ماہ میں تین سے چار لائسنس مقامی طور پر مینوفیکچرنگ کے لئے جاری کئے گئے ہیں، اب مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ پر فوکس ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمیں ایک اور چیلنج بھی درپیش ہے، وہ یہ کہ جو آٹو پارٹس یہاں بن رہے ہیں ان کا خام مال بھی ہم درآمد کر رہے ہیں، اب مقامی سطح پر خام مال کو استعمال میں لانے کی پالیسی پر بھی کام شروع ہو گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار نے کہا کہ موٹر سائیکل کے تقریباََ 80 سے 90 فیصد پارٹس اب پاکستان میں بن رہے ہیں، ملک کی دیہاتی آبادی میں اچھی فصل ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل کی مارکیٹ میں طلب میں اضافہ ہوا ہے، آئندہ سال چار لاکھ اضافی موٹر سائیکل کی پیداوار متوقع ہے اور یہ 26 لاکھ سے 30 لاکھ ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ نئی پالیسی کے تحت ہماری کوشش ہے کہ شہروں میں الیکٹرک موٹر سائیکل کے رجحان میں اضافہ کیا جائے تاکہ شہروں میں فضائی آلودگی کے عنصر کو بھی کم کیا جا سکے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here