پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ تجدید موخر

559

پشاور: پاکستان اور افغانستان کے درمیان رواں برس نومبر کے دوران ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ ختم ہو جائے گا لیکن ابھی تک معاہدے میں تجدید کے حوالے سے کسی بھی طرح کی پیشرفت نہیں کی گئی۔ 

پاک- افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر ضیاالحق سرحدی نے نمائندہ پرافٹ اردو کو بتایا کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کا گزشتہ برس دسمبر کے آخر میں اجلاس منعقد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس کے دوران پاکستان نے نئے پاک افغان ٹرانزٹ اینڈ ٹریڈ ایگریمنٹ کے لیے افغان حکام کو اپنی تجاویز پیش کی تھی لیکن ان تجاویز پر ابھی تک کسی بھی طرح کا جواب نہیں دیا گیا۔

سرحدی نے کہا کہ اگر نئے تجارتی معاہدے پر 11 فروری تک دستخط نہیں ہوتے تو 2010 کا ‘ناموافق’ معاہدہ آئندہ پانچ سال کے لیے خودبخود لاگو ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے پر پہلی بار 1965 میں جنیوا میں دستخط کیے گئے تھے جو 45 سال تک چلتا رہا۔ اس معاہدے کے تحت کراچی کی بندرگاہ سے پشاور اور چمن تک تمام مصنوعات ریل گاڑیوں کے ذریعے سپلائی کی جاتی رہیں جس سے پاکستان ریلوے کو سالانہ 7 ارب روپے منافع ہو رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیۓ:

پاک افغان تجارت میں رکاوٹیں، سیمنٹ کی برآمدات متاثر، 8.6 فیصد کمی

پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ، کیا بھارتی مصنوعات کو بھی راہداری مہیا کی جائیگی؟

لیکن 2010 کے معاہدے کے تحت وفاقی بورڈ برائے ریونیو (ایف بی آر) سے رجسٹرڈ ہونے کے بعد کچھ نجی ٹرک کمپنیاں کارگو بزنس پر براجمان ہو جائیں گی جس سے حکومتی خزانے کو بھاری نقصان اور پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ 70 فیصد تک کم ہو گی۔

سرحدی نے کہا کہ ٹریڈرز نے تجویز دی تھی کہ نئے معاہدے میں ریلوے اور کھلی کارگو کے ذریعے کراچی بندرگاہ سے پشاور اور چمن تک ٹرانزٹ کی ترسیل اور اشیاء کی تجارت کو شامل کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سے نہ صرف حکومت کو آمدن میں اضافہ ہو گا بلکہ اس سے تاجروں کو اشیاء کی ترسیل کے لیے بلا رکاوٹ سہولیات بھی ملیں گی۔

پاک افغان چیمبر کے نائب صدر اور افغان بزنس مین خان جان الکزئی نے اس دوران نمائندہ پرافٹ اردو کو بتایا کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو حالیہ برسوں میں دونوں حکومتوں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد اور معاہدوں کی تجدید نہ کرنے کی وجہ سے شدید دھچکا لگا ہے۔

انہوں نے کہا کہ “افغان حکومت نے گزشتہ اجلاس میں تجویز دی تھی کہ نیا معاہدہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور دیگر عالمی قوانین کے مطابق ہونا چاہیے لیکن یہ پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول تھا کیونکہ انہوں نے اس مسئلے پر کچھ اعتراضات اٹھائے تھے۔ اگر ہم نیا معاہدہ نہیں کرتے تو 2010 کے معاہدے میں خودبخود توسیع ہو جائے گی”۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here