کراچی: کاروباری برادری نے باسمتی چاول کے جیوگرافیکل انڈیکیشن (جی آئی) ٹیگ حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں اپنی دیگر مشہور مصنوعات کے فروغ اور انہیں محفوظ کرنے کے لیے جی آئی ٹیگ کی حیثیت دینے کا مطالبہ کر دیا۔
حال ہی میں پاکستان نے باسمتی چاول پر انٹیلیکچؤل پراپرٹی آرگنائزیشن کے ذریعے جی آئی ٹیگ حاصل کرنے کا دعویٰ دائر کیا تھا، بھارت کی جانب سے یورپین یونین کی ویب سائٹ پر باسمتی چاول پر جی آئی ٹیگ لینے کے لیے درخواست کی گئی تھی جس کے ردِعمل میں پاکستان نے بھارتی دعوے کو چیلنج کیا تھا۔ باسمتی چاول بھارت اور پاکستان دونوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔
اگر کوئی بھی ملک جی آئی ٹیگ حاصل کرتا ہے تو دیگر ممالک مذکورہ چاولوں کا برانڈ عالمی منڈی میں بیچنے کے اہل نہیں رہتے اور نہ ہی اس چاول کے عوض کم قیمت وصول کر سکتے ہیں۔ بھارت کے بعد پاکستان نے بھی باسمتی چاول پر جی آئی ٹیگ حاصل کرنے کے لیے درخواست دے رکھی ہے، دونوں ممالک کو ان کی پیداوار کے مطابق اپنے حصے کی چاولوں کی برآمدات حاصل کرنے کی توقع ہے۔
تاہم، پاکستان کی کئی مصنوعات ایسی ہیں جن کی عالمی منڈی میں جلد رجسٹریشن کی ضرورت ہے۔ عالمی منڈی میں جی آئی ٹیگ کی حامل مصنوعات کی قیمتیں زیادہ وصول کی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیۓ:
پاکستانی مصنوعات کے عالمی مارکیٹ میں تحفظ کیلئے 18 سال بعد جیوگرافیکل انڈیکیشن رولز منظور
بھارت کیخلاف باسمتی چاول کیس، حکومت کا جیوگرافیکل انڈیکیشن رولز جاری کرنے کا فیصلہ
ایس ایم ای فارمرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چئیرمین محمد سعید نے کہا ہے کہ پاکستان کی وہ مصنوعات جو علاقائی سطح پر اپنی پہنچان رکھتی ہیں ان میں ہنزہ کی خوبانی، پشاوری چپل، ملتانی سوہن حلوہ، سندھی اجرک (شال)، سرگودھا کے کینوں، قصوری میتھی اور سندھی آم شامل ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے چئیرمین ایسوسی ایشن نے کہا کہ دیر کی چھریاں، سوات کے جنگلوں کی مشروم، چمن کے انگور اور پشمینہ کی شال عالمی منڈی میں صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باسمتی چاول کے علاوہ پاکستانی مصنوعات کے لیے جی آئی ٹیگ نہ صرف برآمدکنندگان کی زیادہ قیمتیں وصول کرنے میں مدد کرے گا بلکہ کسانوں، کاشتکاروں اور پیدا کنندگان کی آمدن میں بھی اضافہ کرے گا جو دن رات اپنے مذکورہ کھتیوں اور انڈسٹریز میں محنت کرتے ہیں۔
صدر یونین آف سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ذالفقار تھاور نے کہا کہ “حکام کو فوراََ آئی پی او سے رابطہ کر کے باالخصوص پاکستان میں مشہور اور علاقائی سطح پر پذیرائی کی حامل مصنوعات کے جی آئی حقوق کا دعوے دائر کرنا چاہیے”۔
انہوں نے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹڈاپ) کے سیکرٹری سے جلد از جلد جی آئی ٹیگ کی درخواست دائر کرنے کا کہا تاکہ برآمدکنندگان کو عالمی منڈی میں اچھی قیمتیں مل سکیں جس سے پاکستان کی برآمدات اور زرِمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہو گا۔
تھاور نے مزید کہا کہ ٹڈاپ کو پاکستانی اشیاء کے لیے جی آئی ٹیگ اور تمام مصنوعات کو رجسٹر کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے علاقوں کی سوغات سمجھی جاتی ہیں۔