اسلام آباد: یورپین یونین میں بھارت کے باسمتی چاول پر جیوگرافیکل انڈیکیشن (جی آئی) ٹیگ کے غیرقانونی دعوے کے خلاف پاکستان نے جی آئی قوانین جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
عالمی منڈی میں کسی بھی پروڈکٹ کے لیے ٹیگ کا دعویٰ کرنے کے لیے مقامی سطح پر جی آئی قانون پر عملدرآمد کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگرچہ، پاکستان کو عالمی منڈی میں گھریلو مصنوعات کی رجسٹریشن سے متعلق مسائل درپیش ہیں، مقامی مصنوعات کو 18 سال سے زائد کی تاخیر کے بعد بھی اس سال منظور کیے گئے جی آئی ایکٹ کے ذریعے محفوظ کرنا ابھی تک چیلنچ ہے۔
واضح رہے کہ کسی بھی پروڈکٹ کے جی آئی ٹیگ کے تحفظ کے لیے اس پروڈکٹ کی رجسٹریشن اپلائی کرنے سے پہلے اس ملک کے جی آئی قوانین کے تحت اسکی حفاظت کرنا لازمی ہوتا ہے۔
تاہم، رواں برس مارچ میں بنائے گئے جی آئی رجسٹریشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ کے قواعد و ضوابط ہی نہیں ہیں اور نہ ہی اس پر عملدرآمد کیا جا رہا تھا جس کی وجہ سے پاکستانی باسمتی چاول ایک محفوظ پروڈکٹ نہیں تھی۔
چاولوں کے برآمدکنندہ اور رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے رکن نے کہا ہے کہ “متعلقہ حکام نے ابھی تک جی آئی قوانین کو حتمی شکل نہیں دی اسی وجہ سے جی آئی لاء پر ابھی تک عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کئی مقامی قابلِ برآمدات مصنوعات کی دنیا میں کسی بھی جگہ پاکستانی جی آئی ٹیگنگ رجسٹرڈ نہیں ہو سکی ہے”۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان نے بالآخر یورپی یونین میں باسمتی چاول پر بھارتی دعویٰ چیلنج کر دیا
’پاکستان باسمتی چاول پر بھارتی دعویٰ یورپی یونین میں چیلنج کرے گا‘
باسمتی چاول کس کا؟ درآمدکنندگان کا یورپی یونین میں بھارتی دعویٰ چیلنج کرنے کا فیصلہ
اس سے قبل ستمبر میں، بھارت نے یورپین یونین میں باسمتی چاول کی ملکیت کا دعویٰ دائر کیا تھا جس کے بعد ان چاولوں کو پاکستان کی پروڈکٹ کے طور پر بچانے کا مسئلہ سب سے پہلے پیش آیا تھا۔
بھارت کی جانب سے یورپین یونین میں جمع کرائی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ ‘باسمتی’ چاول بھارتی خطے میں کاشت کیا جاتا ہے اس لیے یہ بھارتی ملکیت کا جی آئی ٹیگ ہے۔
چاولوں کی قسم پر تفصیلی وضاحت کرنے کے بعد بھارتی حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ خطہ شمالی بھارت کا حصہ ہے جو ہمالیہ سے نیچے Indo-Gangetic سطح کا حصہ ہے۔
اتفاقی طور پر یہ مسئلہ وزارتِ تجارت نے اپنے سے ملحقہ محکمے انٹیلیکچؤل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان (آئی پی او) کی جانب سے بھی اٹھایا تھا، مقامی چاول کے برآمدکنندگان نے یورپین یونین کی ویب سائٹ پر بھارت کی جانب سے دی گئی درخواست سے متعلق وزارتِ تجارت کو بروقت آگاہ کر دیا تھا۔
بالآخر، رواں ماہ حکومت کی جانب سے بھارتی دعویٰ چیلنج کرنے سے متعلق پاکستان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ باسمتی چاول بھارت اور پاکستان کی پروڈکٹ ہے نہ کہ صرف بھارت کی۔
یہ بھی مدِنظر رہے کہ پاکستان دنیا بھر میں پانچ سے سات لاکھ ٹن سالانہ باسمتی چاول برآمد کرتا ہے جس میں سے دو سے ڈھائی لاکھ ٹن باسمتی چاول یورپین یونین برآمد کیا جاتا ہے۔
اس دوران، ترجمان آئی پی او پاکستان نے کہا ہے کہ آنے والے کچھ دنوں میں جی آئی لاء کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا امکان ہے۔
ترجمان آئی پی او نے کہا کہ “جی آئی قوانین پرنٹنگ پراسیس میں ہیں اور جلد وزارتِ تجارت کی جانب سے نوٹی فکیشن جاری کیا جائے گا”۔