اسلام آباد: وفاقی کابینہ کا انٹیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے متعلق اختلافات کے حل کے لیے غیرجانبدار پینل کی منظوری دینے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق وزارتِ قانون و انصاف نے وفاقی کابینہ سے آئی پی پیز سے متعلق مسائل کے حل کے لیے سات رکنی غیرجانبدار پینل بنانے سے متعلق نوٹی فکیشن جاری کرنے کی درخواست کی تھی، مذکورہ پینل آلٹرنیٹو ڈسپیوٹ ریزولیوشن رولز 2018 کے مطابق ایکٹ 2017 کے سیکشن 4 (1) کے تحت بنایا جائے گا۔
وزارتِ قانون کے مطابق مذکورہ پینل جسٹس (ر) مولوی انوار الحق کے علاوہ سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ طاہر عباسی، شیرین عمران، حمیرہ مسیح الدین، حافظ عرفات احمد، ہادیہ عزیز اور نتالیہ کومل پر مشتمل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کے منگل کو ہونے والے اجلاس میں پینل کے قیام سے متعلق نوٹی فکیشن جاری کرنے کی اجازت دینے کا امکان ہے جو آئی پی پز کو 60 روپے کی متنازعہ ادائیگی سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں مدد کرے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
گردشی قرضے سے جان چھڑانے کیلئے حکومت کی آئی پی پیز کو واجبات ادائیگی کی پیشکش
آئی پی پیز کیساتھ مذاکرات حکومت کیلئے مزید مسائل کا سبب کیوں بن سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ غیرجانبدار پینل کی تشکیل کا فیصلہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ انٹرنیشنل عدالتوں کی جانب سے آئی پی پیز کو تفتیش سے بچانے کے لیے لیا گیا ہے۔
اس سے قبل، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے آئی پی پیز سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے ریٹائرڈ ججز اور ایڈووکیٹ پر مشتمل نو رکنی پینل کی تشکیل کی منظوری دی تھی۔
تاہم، وزارتِ قانون نے جسٹس (ر) سردار محمد اسلم کے کورونا وائرس کے سبب انتقال کی وجہ سے سات رکنی پینل کی منظوری کی درخواست کی تھی کیونکہ محمد اسلم کے جاں بحق ہونے کے بعد ایڈووکیٹ فیاض احمد انجم جندران آئی ایچ سی کے جج تعینات ہوگئے تھے اور یوں 9 میں سے سے 7 ارکان رہ گئے تھے۔
دستاویزات کے مطابق آلٹرنیٹو ڈسپیوٹ ریزولیوشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 4 وفاقی حکومت کو ہائی کورٹ سے مشاورت کے بعد آفیشل گیزٹ میں غیرجانبدار پینل کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ مذکورہ پینل میں کم از کم سات سال کا تجربہ رکھنے والے وکلاء، ریٹائرڈ ججز، ریٹائرڈ سول سرونٹس، علماء، جیورٹس، ٹیکنوکریٹس، ماہرین اور ایکٹ کےتحت تجربہ کار اور قابلیت کے حامل معزز افراد کو پینل میں شامل کیا جا سکتا ہے۔