اسلام آباد: مالی سال 2022-23ء کے دوران مختلف کاروباروں، صنعتوں، لابیوں اور سرمایہ کاری گروپوں کو مجموعی طور پر 2.239 ٹریلین روپے ٹیکس چھوٹ دی گئی جو مالی سال 2021-22ء میں 1.757 ٹریلین روپے تھی۔
ٹیکس چھوٹ کی لاگت میں 2021-22ء کے ٹیکس اخراجات کے مقابلے میں 2022-23ء کے دوران 27.4 فیصد اضافہ ہوا۔
8 جون کو جاری کردہ اقتصادی سروے 2022-23 میں انکشاف کیا گیا کہ سیلز ٹیکس کی چھوٹ میں اضافے کا واحد سب سے بڑا حصہ مختلف SROs کے ذریعے پٹرولیم پروڈکٹس پر سیلز ٹیکس سے استثنیٰ تھا جس سے 2022-23 کے دوران 632.9 ارب روپے کا بھاری نقصان ہوا۔
اسی طرح (درآمدات) پر چھٹے شیڈول کے تحت سیلز ٹیکس کی چھوٹ نے 257.5 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ نویں شیڈول کے تحت موبائل فونز پر 129.9 ارب روپے اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ 2022-23 میں 1.021 ارب روپے کی آمدنی کا نقصان ہوا۔
مجموعی طور پر حکومت نے 2022-23 میں سیلز ٹیکس میں 1294 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی۔
آٹوموبائل سیکٹر، ای اینڈ پی ایس، سی پی ای سی وغیرہ نے 2022-23 کے دوران 192 ارب روپے کا ملک کو ریونیو نقصان پہنچایا۔ اسی طرح کسٹمز ایکٹ 1969 کے پانچویں شیڈول کے تحت چھوٹ اور رعایتوں سے 172.9 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
ایف بی آر کو 2022-23 کے دوران فری ٹریڈ ایگریمنٹس (FTAs) اور ترجیحی تجارتی معاہدوں (PTAs) کے تحت دستیاب ٹیرف رعایتوں اور چھوٹ کی وجہ سے بھی 102 ارب روپے کا بھاری نقصان ہوا۔
برآمدات سے متعلقہ استثنیٰ سے 30.8 ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ باب 99 کے تحت چھوٹ نے 2022-23 میں ایف بی آر کو 22 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ مجموعی طور پر کسٹم ایکٹ 1969ء کے تحت ٹیکس چھوٹ پر حکومت کو 2022-23 میں 521.7 ارب روپے لاگت آئی۔
دوسری طرف انکم ٹیکس کی چھوٹ کی لاگت 2021-22 میں 399.662 ارب روپے سے بڑھا کر 2022-23 میں 423.8 ارب روپے کر دی گئی۔