حکومت کا یورو بانڈز کے ذریعے 2 ارب ڈالر جمع کرنے کا منصوبہ

164

اسلام آباد: حکومت آئندہ مالی سال میں یورو بانڈز کے ذریعے 2 ارب ڈالر اکٹھا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی عدم موجودگی میں غیرملکی قرضوں کی واپسی کے حوالے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی طرف سے صورتحال واضح نہ ہونے کی وجہ سے کثیر الجہتی اور دو طرفہ قرض دہندگان سے بیرونی قرضوں کی آمد کا تخمینہ اگلے مالی سال کے لیے صرف 6.2 ارب  ڈالر لگایا گیا ہے جو اس سال کے اصل تخمینہ سے تقریباً 30 فیصد کم ہے۔

6.2 ارب ڈالر کے تخمینہ میں یورو بانڈز، تجارتی قرضوں اور آئی ایم ایف کے قرضوں کی مد میں کوئی آمدن شامل نہیں ہے۔

وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ حکومت مالی سال 2023-24 کے دوران یورو بانڈز کے ذریعے 2 ارب ڈالر جمع کرنے پر دوبارہ غور کر رہی ہے۔

تین بڑی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان کو تفویض کردہ کریڈٹ ریٹنگ کی وجہ سے رواں مالی سال کے دوران کیپٹل مارکیٹ سے فنانسنگ حاصل کرنے کی اس کی کوششیں بے سود رہیں۔ تاہم اگر پاکستان کیپٹل مارکیٹ میں قدم رکھنا چاہتا ہے تو اسے آئی ایم ایف کواعتماد میں لینا ہو گا۔ آئی ایم ایف کی منشا کے بغیر نئے غیر ملکی تجارتی قرضوں کا حصول اور خودمختار بانڈز جاری کرنا مشکل ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ رواں مالی سال کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کی وصولی کی توقع تھی لیکن اسے اب تک صرف 1.2 ارب ڈالر ملے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے 6.5 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام میں توسیع کا کیلئے کہا، لیکن ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے وزیراعظم کو بتایا کہ موجودہ پروگرام میں مزید توسیع ممکن نہیں۔

اگلے مالی سال کے لیے وزارت خزانہ دو منظرناموں پر کام کر رہی ہے: یعنی غیر ملکی امداد کا سہارا لیتے ہوئے آئی ایم ایف پر انحصار یا پھر آئی ایم ایف پر انحصارکے بغیر معیشت کو چلانا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے مالی تعاون کی عدم فراہمی کی صورت میں چین کی طرف دیکھے گی۔

حقیقت پسندانہ مفروضہ یہ ہے کہ چین غیر ملکی تجارتی قرضوں میں 3.5 ارب ڈالر اور سٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف فارن ایکسچینج (SAFE) سے مزید 4 ارب ڈالر کی ادائیگی کر سکتا ہے لیکن پاکستانی حکام اس سے بھی زیادہ قرضہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔

آئی ایم ایف کے تعاون کے بغیر، کثیر جہتی اور دو طرفہ قرض دہندگان کی طرف سے مشترکہ غیر ملکی قرضوں کی تقسیم کا تخمینہ 6.2 ارب ڈالر ہے، جو کہ بڑھتی ہوئی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت اگلے مالی سال میں کثیر الجہتی قرض دہندگان سے 5.3 ارب ڈالر کی توقع کر رہی ہے جو اس سال کے اصل تخمینہ سے 2.3 ارب ڈالر کم ہے۔

اس سال کے 2.6 ارب ڈالر کے اصل تخمینہ کے برعکس، پاکستان اگلے مالی سال میں ورلڈ بینک سے نئے قرضوں کی مد میں 2.3 ارب ڈالر کا بجٹ رکھے گا۔

اسی طرح پاکستان کو رواں مالی سال میں ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی  بی) سے 3.2 ارب ڈالر ملنے کی توقع تھی لیکن اگلے سال 2 ارب ڈالر آنے کی توقع ہے۔

مالی سال 2023ء-24ء میں حکومت نے اسلامی ترقیاتی بینک (آئی بی ڈی) سے قلیل مدتی قرض کی مد میں 1.2 ارب ڈالر کا بجٹ رکھا تھا۔ لیکن اگلے مالی سال کے لیے یہ آئی بی ڈی سے صرف 50 کروڑ ڈالرکا تخمینہ لگا رہا ہے۔

اسی طرح، ملک کو رواں مالی سال میں ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (AIIB) سے57 کروڑ 90 لاکھ ڈالر موصول ہوئے تھے۔ اب اگلے برس اسے AIIB سے36 کروڑڈالرکی توقع ہے۔

مالی سال 2023-24 کے لیے دو طرفہ قرض دہندگان کی جانب سے آمدن کا تخمینہ اس مالی سال کے 1 ارب ڈالر کے تخمینہ کے مقابلے میں صرف 89 کروڑ ڈالر ہے۔

ایک ارب ڈالر میں سے 60 کروڑ ڈالر سعودی عرب سے تیل کی موخر ادائیگیوں کی مد میں آنے کا امکان ہے۔ چینی امداد کا تخمینہ 2 کروڑ ڈالر سے کم ہے۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جولائی سے اپریل 2023ء تک غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی 8 ارب ڈالر رہی، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 38 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔

یہ ادائیگیاں پختہ ہونے والے غیر ملکی قرضوں کی مالی اعانت کے لیے ناکافی ہیں، جس کے نتیجے میں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جو اس وقت صرف 4 ارب ڈالر ہیں۔

کم ادائیگی کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے میں حکومت کی ناکامی ہے۔ نتیجتاً 8 ارب ڈالر کی وصولی 22.8 ارب ڈالر کے سالانہ بجٹ تخمینہ کا صرف 35 فیصد ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here