لاہور: وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو صوبائی دائرہ اختیار میں آنے والی ڈیجیٹل سروسز پر لاگو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) وصول کرنے کا اختیار دیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ موجودہ ریورس چارج میکنزم (آر سی ایم ) ایک پیچیدہ نظام ہے جسے سمجھنا اور اس کی تعمیل کرنا کاروباروں کیلئے مشکل ہے۔ ماضی میں بھی اس محاذ پر خامیوں کی نشاندہی کی گئی اور بحث ہوئی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
یہاں جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ کئی گنا زیادہ ہیں جو دوہرے ٹیکس کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ تاہم حکومت پاکستان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ اس کی وجہ سے کاروباری اداروں کی طرف سے نمایاں رقم ٹیکس چوری کی نذر ہوئی جو حکومت کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ کاروباری مالکان یہ دعویٰ کر کے ٹیکس ادا کرنے سے بچ سکتے ہیں کہ وہ کسی سروس کے آخری صارف (end user) نہیں ہیں۔
اگرچہ متعلقہ دفعات صوبائی سیلز ٹیکس کے قوانین کے تحت موجود ہیں تاہم پاکستان سے باہر سے شروع ہونے والی ٹیکس سروسز کے صوبے کے آئینی حق پر تنازعات کا ایک نیا سلسلہ جنم لیتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اشفاق ٹولہ کی سربراہی میں کمیشن نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ صوبوں کو وفاق کو اُن سروسز (خاص طور پر ڈیجیٹل سروسز جو عملی طور پر فراہم کی جاتی ہیں) پر ایف ای ڈی جمع کرنے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کرنی چاہیے جو ریورس چارج میکنزم کے تحت سیلز ٹیکس کے تابع ہیں۔
وفاقی حکومت کو خدمات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی جمع کرنے کی اجازت دینے سے ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے ٹیکس سے بچنے کے مسئلے کو حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ملٹی نیشنل کارپوریشنز پاکستان میں ٹیکس ادائیگی سے بچنے کے لیے اکثر پیچیدہ سٹرکچر کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ خدمات پر ایکسائز ڈیوٹی جمع کر کے وفاقی حکومت ان کارپوریشنوں پر ٹیکس لگانے کے قابل ہو جائے گی چاہے وہ کہیں بھی موجود ہوں۔
یہ بات اہم ہے کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سیلز ٹیکس کے مقابلے میں ایک آسان ٹیکس ہے اور کاروباروں کے لیے اسے سمجھنا اور اس کا حساب لگانا آسان ہو گا۔ اس سے ٹیکس چوری میں کمی اور وفاقی ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا۔ تاہم اس سے صوبائی محصولات کہاں جائیں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ابھی تک جواب طلب ہے۔