سمٹ بینک نے پاکستان سٹاک ایکسچینج سے اپنا سرمایہ ایڈجسٹ کرنے کی التجا کر دی

259

کراچی: سمٹ بینک نے پاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کو رائٹ کے علاوہ دیگر شیئرز کے اجراء کی درخواست کی ہے جبکہ سٹاک ایکسچینج کو ریگولیٹری اداروں کو 8 کروڑ 53 لاکھ روپے کی ادائیگی سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔

مذکورہ رقم دو حصوں پر مشتمل ہے، سب سے پہلے 7 کروڑ 90 لاکھ 70 ہزار روپے کی اضافی لسٹنگ فیس، جو پاکستان سٹاک ایکسچینج ریگولیشن 5.19.1 کے مطابق ادا شدہ سرمائے میں اضافے کے 0.2 فیصد کے حساب سے ہے۔ اضافی لسٹنگ فیس ایک ضمنی چارج ہے جو سٹاک ایکسچینج کے ذریعہ عائد کیا جاتا ہے جب کوئی کمپنی اپنے ادا شدہ سرمائے کو بڑھانے یا اپنی موجودہ فہرست میں تبدیلی کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔

دوسری، 70 لاکھ 90 ہزار روپے کی سپروائزری فیس، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی اپی ) کو ادا کی گئی ہے، جو پی ایس ایکس کو ادا کی گئی اضافی لسٹنگ فیس کے 10 فیصد کے برابر ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ بینک نے مجموعی رقم سے 20 لاکھ 40 ہزار روپے کی ٹیکس کٹوتی کی ہے اور اس کے مناسب ثبوت وقت پر بینک جمع کرائے گا۔

ریگولیٹری تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ سمٹ بینک نے پی ایس ایکس سے باضابطہ طور پر درخواست کی ہے کہ وہ اس کے عام شیئرز کا اجراء کرکے ادا شدہ سرمائے کو ایڈجسٹ کرے۔

یہ بھی پڑھیے: 

بینکوں کو ایس ای سی پی کے پورٹل سے کمپنیوں کے ریکارڈ تک براہ راست رسائی مل گئی

جعلی اکائونٹس کیس میں نامزد اماراتی سرمایہ کار نے سُمٹ بینک کے 51 فیصد شئیرز خرید لیے

رواں سال کے آغاز میں بینک اس وقت شہ سرخیوں میں آیا جب متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک سرمایہ کار ناصر عبداللہ حسین لوطہ کا نام اس کے بڑے شیئر ہولڈر کے طور پر ابھرا۔ لوطہ نے جنوری 2023ء میں سمٹ بینک میں 10 ارب روپے کی خطیر رقم ڈالی جس سے بینک کے 3.98 ارب کے نئے شیئرز 2.51 روپے فی شیئر کے حساب سے خریدے گئے۔  نتیجتاً، بینک میں لوطہ کی ملکیت 51 فیصد تک بڑھ گئی۔

بینک مالی مشکلات کا شکار ہے۔ 2018ء میں منی لانڈرنگ سکینڈل کی وجہ سے بینک کے بارے میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ ایف آئی اے نے سمٹ بینک اور دیگر فرموں میں مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کے مقدمات کی تحقیقات کیں۔

اسی سال سمٹ بینک اپنے مالیاتی اعدادوشمار جاری کرنے میں ناکام رہا جس سے بینک کی ساکھ مزید خراب ہوئی۔ 2019ء میں بھی بینک اپنی مالیات جاری کرنے میں ناکام رہا اور اس عدم تعمیل کے نتیجے میں اسے پی ایس ایکس کے ڈیفالٹرز کے سیگمنٹ میں نیچے کر دیا گیا۔

سٹاک ایکسچینج میں تنزلی کے بعد بینک نے 2020ء میں اپنے 2018ء کے مالیاتی اعدادوشمار جاری کر کے اپنی راہ درست کرنے کی ایک کمزور کوشش کی لیکن مسلسل تیسرا سالانہ اجلاس بلانے میں ناکام رہا۔

پھر 2021ء کے اواخر میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ریگولیٹری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کافی دباؤ کے بعد، سمٹ بینک نے تین سال کی مالیاتی سٹیٹمنٹس جاری کیں یہ الگ بات کی اعتماد کی بحالی اب بھی نہیں ہوئی تھی۔

سمٹ بینک کبھی بھی زیادہ منافع بخش بینک نہیں رہا۔ درحقیقت اس نے گزشتہ 10 سالوں میں 2014 اور 2015 میں صرف دو بار ٹیکس لگانے کے بعد ایک معمولی سا خالص منافع حاصل کیا، وہ بھی بالترتیب 217 روپے اور 23 کروڑ روپے۔ اکتوبر2021ء میں جاری ہونے والے 2019ء کے نتائج میں بینک نے اپنا سب سے بڑا نقصان 9.4 ارب روپے ریکارڈ کیا لیکن یہ پچھلے سال کے 8.7 ارب روپے کے نقصان سے زیادہ فرق والا نہیں تھا۔ اسے 2020ء، 2021ء اور 2022ء میں بالترتیب 6.9 ارب روپے، 2.88 ارب روپے اور 3.16 ارب روپے کا خالص نقصان ہوا۔ نتیجتاً، 2022ء کے اختتام پر سمٹ بینک کی بیلنس شیٹ پر کل جمع شدہ نقصانات 41.7 ارب روپے تھے۔

دسمبر 2022ء کے اختتام پر، بینک کا ادا شدہ سرمایہ منفی 21.8 ارب روپے تھا جو 10 ارب روپے کی قانونی ضرورت کے مقابلے میں تھا۔ اسی طرح، اس کا کیپیٹل ایڈیکیسی ریشو (سی اے آر) منفی 79.5 فیصد رہا جبکہ ریگولیٹری ضرورت 11.5 فیصد ہے۔

تابوت میں آخری کیل پچھلے سال اس وقت ٹھونکی گئی جب حکومت نے انکشاف کیا کہ اس نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے وعدہ کیا ہے کہ اگر دو بینک اپنی دوبارہ سرمایہ کاری کے پہلے مرحلے کو مارچ تک مکمل نہیں کرتے ہیں تو مئی 2023ء تک ان کی جبری تنظیم نو کی جا سکتی ہے یا  2015ء میں کسب بینک کی طرح فروخت کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ بینکوں کا نام نہیں لیا گیا تھا، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سمٹ بینک ان دو بینکوں میں سے ایک تھا۔ اس طرح سمٹ بینک کے لیے اپنے منفی ادا شدہ سرمائے اور کم سی اے آر کو حل کرنے سے بچنے کے لیے سرمائے کا انجیکشن ایک اہم ضرورت بن گیا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here