لاہور: ایپل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ٹِم کُک گزشتہ ماہ اپریل میں بھارت پہنچے اور وہاں پہلے ایپل سٹور کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر اُن کا پُرجوش خیرمقدم ہوا۔ ہر کسی کی خوشی دیدنی تھی کیونکہ بھارت میں ایپل کا کاروبار مزید بڑھنے کا امکان پیدا ہوا ہے۔
ان خوشگوار کاروباری تعلقات کا نیا باب 2017ء سے شروع ہوا تھا جب بھارتی حکومت نے ایپل کو اپنے ملک میں آئی فون بنانے پر آمادہ کیا۔ یہ ایک ایسا تعلق ہے جس کی وجہ سے ایپل نے اپنے روایتی حریف سام سنگ کو ہندوستان کی پی ایل آئی سکیم کو اپنانے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے بھارت نے رواں مالی سال میں سمارٹ فونز کی برآمدات سے 9 ارب ڈالر کمائے۔
جب ہمارے پڑوسی ملک نے یہ پیش قدمی کی تو ہم جھنجھلاہٹ اور حسد کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھتے رہے اور ہمارے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں یہ سوال ضرور موجود تھا کہ بھارت نے ایپل کو سرمایہ کاری پر کیسے آمادہ کیا؟
صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی موبائل فون انڈسٹری بھارت کی انڈسٹری کے برعکس فی الحال پاتال میں گری پڑی ہے۔ خام مال کی کمی سے یہ صنعت کمزور ہوئی ہے جبکہ رہی سہی کسر ایل سیز پر پابندی نے نکال دی ہے اور اسے بندش کے قریب پہنچا دیا ہے۔
ٹِم کُک نے بھارت سے واپسی پر جلد دوبارہ آنے کی خواہش کا اظہار کیا تو یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ بھارت کے کاروباری دورہ نے اُن پر دیرپا اثر چھوڑا ہے۔ ہم صرف دیکھتے رہے۔
تو کیا ہم نے ایک اور موقع ضائع کر دیا ہے؟ کیا پڑوسی ملک کی یہ کامیابی ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے پر آمادہ نہیں کرتی؟
ہماری کہانی 2019ء سے شروع ہوتی ہے جب چین کی ٹرانشین ہولڈنگز (Transsion Holdings) اور پاکستان کے ٹیکنو گروپ کا اشتراک ہوا جس کے نتیجے میں اِن ٹیل، ٹیکنو اور اِنفِنکس (Infinix) برانڈز کے سمارٹ فون پاکستان میں بنائے جانے تھے۔
2020ء میں انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) نے موبائل ڈیوائس مینوفیکچرنگ پالیسی منظور کی جس کا مقصد مراعات کی پیشکش کر کے کمپنیوں کو موبائل سازی پر آمادہ کرنا تھا۔
مذکورہ پالیسی کے تحت کمپنیوں کو درج ذیل مراعات دی گئیں:
1۔ 350 ڈالر تک کے موبائل فونز بنانے کیلئے مکمل یا جزوی تیار شدہ یونٹس پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور فکسڈ انکم ٹیکس معاف کر دیا گیا۔
2۔ 351 ڈالر سے 500 ڈالر مالیت کے فونز کے یونٹس پر 2 ہزار روپے اور 500 ڈالر سے مہنگے فونز کے یونٹس پر 6 ہزار تین سو روپے فکسڈ انکم ٹیکس لاگو کیا گیا۔
3۔ مِس ڈیکلیریشن کو روکنے کے اقدامات بھی پالیسی کا حصہ بنائے گئے۔
4۔ موبائل فون برآمد کرنے والے مقامی مینوفیکچررز کیلئے 3 فیصد ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ الاؤنس مقرر کیا گیا۔
5۔ مکمل تیار شدہ اور جزوی تیار یونٹس کے مابین ٹیرف کا فرق رکھا گیا۔
6۔ لازم قرار دیا گیا کہ مقامی صنعت ویلیو چین کو مقامی بنانے کیلئے روڈ میپ پر عمل کرے گی۔
انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ نے 30 کمپنیوں کو موبائل فون بنانے کیلئے لائسنس جاری کیے۔ سام سنگ، شیائومی اور اوپو جیسے بین الاقوامی برانڈز نے لکی موٹرز، ٹیکنو پیک الیکٹرونکس اور ایگزرٹ ٹیک جیسی مقامی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کی۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ موبائل فونز منوفیکچرنگ پالیسی کسی دوسرے شعبے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے تو آپ ٹھیک سمجھ رہے ہیں۔ یہ غیر معمولی طور پر آٹوموٹیو انڈسٹری سے ملتی جلتی ہے۔ تاہم عملاً یہی پالیسی چل رہی ہے.
یہ بھی پڑھیے:
19 کمپنیوں کو پاکستان میں موبائل فون تیار کرنے کی اجازت مل گئی
’میڈ اِن پاکستان‘ موبائل فونز کی تعداد درآمد کردہ فونز سے بڑھ گئی، کروڑوں ڈالر کی بچت
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) کے اعدادوشمار کے مطابق 2021ء میں مقامی طور پر بنائے گئے فونز کی پیداوار 2 لاکھ 90 ہزار یونٹس سے بڑھ کر 2 کروڑ 46 لاکھ یونٹس ہو گئی۔ 2022ء میں معاشی بحران کے باوجود 2 کروڑ 19 لاکھ 40 ہزار فون تیار کیے گئے۔ یہ تعداد مزید بڑھنے کی گنجائش ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیلولر صارفین کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔
2022ء کے اواخر میں سیلولر سبسکرائبرز کی تعداد بڑھ کر 19 کروڑ 45 لاکھ 80 ہزار ہو گئی۔ 2017ء اور 2022ء کے درمیان سالانہ اوسطاً ایک کروڑ 7 لاکھ نئے صارفین بنے۔ اس کا مطلب ہے کہ کمپنیاں موجودہ صارفین کے ساتھ ساتھ ہر سال نئے بننے والے ایک کروڑ سے زائد صارفین کو بھی سمارٹ فون بیچ سکتی ہیں۔
ائیر لنک کمیونی کیشن کے سی ای او اور پاکستان موبائل فون مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین مظفر حیات پراچہ کا کہنا ہے کہ ’’اگر ہمیں کارباری آزادی دی جاتی ہے تو ہم اگلے تین سے پانچ برسوں میں سمارٹ فونز کی برآمدات سے قومی خزانے میں 10 ارب سے 15 ارب ڈالر ڈال سکتے ہیں۔ ویتنام کی مثال پر عمل کریں تو اگلے پانچ سے دس برسوں میں 40 ارب سے 50 ارب ڈالر بھی کما سکتے ہیں۔‘‘
تاہم وہ معترض ہیں کہ ’’حالیہ عرصے کے دوران ایک روپے کا لیٹر آف کریڈٹ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ موبائل فون کیلئے درکار خام مال موجود نہیں ہے۔ صنعت بندش کے قریب ہے۔ سام سنگ اور شیائومی جیسے بڑے برانڈز پاکستان چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔‘‘ مظفر پراچہ کے مطابق ’’اگر ایل سیز کا اجراء شروع کر دیا جاتا ہے تو یہ شعبہ دوبارہ پیداوار شروع کر دے گا۔‘‘
کتنے لوگ جانتے ہیں کہ سام سنگ فون پاکستان میں بنائے گئے ہیں؟ اور اُسی کمپنی نے بنائے ہیں جو کِیا سپورٹیج (Kia Sportage) گاڑیاں بناتی ہے؟
’’پرافٹ‘‘ نے برآمدی موبائل فونز کی قیمت معلوم کرنے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور ادارہ برائے شماریات کے اعدادوشمار کا جائزہ لینے کی کوشش کی تاہم کامیابی نہ مل سکی۔ یہ عجیب بات ہے کہ اعدادوشمار آسانی سے دستیاب نہیں۔
لیکن زیادہ تر مقامی کمپنیاں ایکسپورٹ کیوں نہیں کر رہیں؟ کچھ لوگ اس کی خطرناک وجوہات بتاتے ہیں۔ تاہم ’’پرافٹ‘‘ کا نکتہ نظر یہ ہے کہ کمپنیاں اپنی موجودہ صلاحیت میں ایکسپورٹ نہیں کر سکتیں۔
متحدہ عرب امارات اور افریقی ممالک واحد مارکیٹیں ہیں جہاں پاکستان میں بنائے گئے سمارٹ فون برآمد کیے گئے۔ مظفر حیات پراچہ کا دعویٰ ہے کہ فون سعودی عرب اور عمان کو بھی برآمد کیے جا رہے ہیں لیکن اس کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔
پریمیئر کوڈ کے سی ای او محمد نقی کہتے ہیں کہ ’’مشرق وسطیٰ ایک بڑی مارکیٹ ہے جس پر ایپل اور سام سنگ کا غلبہ ہے۔ ویتنام میں بنا سام سنگ کا فون پاکستان میں بنے فون سے سستا ہے۔ سام سنگ ویتنام میں اپنی ذیلی کمپنی کے ذریعے مشرق وسطیٰ کو براہ راست سمارٹ فونز برآمد کر کے منافع کما سکتی ہے تو وہ پاکستان میں اپنے مقامی شراکت دار کے ساتھ منافع تقسیم کیوں کرے۔‘‘
محمد نقی کا کہنا ہے کہ مصر میں بھی بڑی مینوفیکچرنگ ہوتی ہے۔ سام سنگ اور نوکیا کے وہاں اپنے یونٹس قائم ہیں۔ افریقی ممالک آزاد تجارتی معاہدوں کے پابند ہیں۔ اگر آپ افریقہ کو برآمد کرتے ہیں، تو آپ کو وہاں کی کمپنی کے خلاف لاگت کا فائدہ کیسے ہو گا؟
یہ بھی پڑھیے:
سام سنگ کا موبائل فونز کی تیاری کیلئے پاکستانی کمپنی کے ساتھ معاہدہ
بھارت میں مینوفیکچرنگ کے بعد ایپل کا ریٹیل سٹور بھی کھل گیا، پاکستان کیا سیکھ سکتا ہے؟
مظفر حیات پراچہ کہتے ہیں کہ ’’موبائل فون انسانی ضرورت بن چکے ہیں، کاریں لگژری چیز ہیں۔ آپ کا فون آپ کی لائف لائن ہے۔ اسے گھر میں بھول جائیں تو لانے کیلئے پلٹ کر واپس گھر جاتے ہیں لیکن کار نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں، آپ بس یا ٹیکسی پر بیٹھ جاتے ہیں یا کرایہ پر موٹر سائیکل یا رکشہ پکڑ لیتے ہیں۔‘‘
انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عادل ناخودہ کا نکتہ نظر ہے کہ کاریں بھی ضرورت ہیں۔ آپ مہران کو پرتعیش کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ ان کا دعویٰ ہے کہ مہران موٹرسائیکل کا ایک سستا متبادل تھا۔ یہ عام لوگوں کی گاڑی تھی۔ لیکن قیمت میں اضافے کی وجہ سے یہ گاڑی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر موبائل ضروری اشیاء میں شامل ہیں تو ان پر درآمدی ڈیوٹی کیوں عائد ہے؟ کسی ضرورت کی چیز پر ٹیرف کیسے لگ سکتا ہے؟
محمد نقی ایل سی ڈی کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مارکیٹ اتنی بڑی نہیں ہے کہ کوئی یہاں ایل سی ڈی کی مینوفیکچرنگ پر غور کرے۔ دنیا میں صرف پانچ چھ کمپنیاں ایل سی ڈی بناتی ہیں۔ پاکستان میں مینوفیکچرنگ یونٹ قائم کرنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی جو مقامی کمپنیاں نہیں کر سکتیں۔ سام سنگ نے بھارت میں اپنا ایل سی ڈی پلانٹ لگانے کے لیے 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ وہاں حکومت نے ٹیکس چھوٹ اور دیگر رعایتیں دی ہیں۔ اسی طرح فون کے لیے کیمرے بھی پاکستان میں نہیں بن سکتے۔
یہاں صورتحال کافی مخدوش ہے۔ تاہم کسی شعبے کا نہ ہونا کسی دوسرے شعبے کو ختم کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ فون مینوفیکچرنگ کا شعبہ پاکستان کیلئے نیا ہے۔
محمد نقی کا خیال ہے کہ ہمیں مضبوط پالیسیوں اور مقامی طور پر پیداوار بڑھانے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اگر خام مال کی درآمدات پونے 15 ارب ڈالر ہوں تاکہ برآمدات 15 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں تو ہم اصل میں برآمد کیا کر رہے ہیں؟ اس طرح تو ہم موبائل فون انڈسٹری کا حال بھی آٹو انڈسٹری والا کر رہے ہیں۔
پی ٹی اے کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے نصف صارفین فیچر فون استعمال کرتے ہیں۔ یہ فون نسبتاً چھوٹے پیمانے کی معیشتوں کیلئے کاروباری مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ایک اور بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمد نقی کہتے ہیں کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کس طرح بھارت نے پہلے چپ مینوفیکچررز کو ٹیسٹنگ سینٹرز کھولنے پر آمادہ کیا پھر بیرونی کمپنیوں کو آؤٹ سورسنگ پر آمادہ کیا۔ اس کے بعد ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ لیبز قائم ہوئیں اور آخر کار کمپنیاں مینوفیکچرنگ یونٹس لگانے پر تیار ہو گئیں۔ بھارت نے تائیوانی کمپنی فوکس کون کو بھی ٹیکس چھوٹ اور دیگر مراعات دے کر فیکٹریاں لگانے پر راضی کر لیا جس نے ایپل کی بھارت میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار کر دی۔
ابھی بھی وقت ہے۔ اگر ہم خاموش تماشائی بنے رہے تو اپنے پڑوسی کو حسد کی نظروں سے ہی دیکھتے رہیں گے۔ موبائل مینوفیکچرنگ انڈسٹری ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ فتح یا المیہ! پاکستان کسی ایسی دوسری صنعت کو پروان چڑھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا جو ٹیکس دہندگان پر انحصار کرتی ہو۔