کیا پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام پیشگی شرائط پر عمل کر لیا؟

131

اسلام آباد: وفاقی وزیر خیزانہ اسحاق ڈار نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ نویں جائزے کے لیے تمام پیشگی اقدامات کی تعمیل کر دی ہے۔

4 مئی 2023ء کو وزیر خزانہ نے اپنے مضمون میں لکھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کے لیے تمام مطلوبہ اصلاحات پہلے ہی کر لی ہیں۔ ان اصلاحات میں ٹیکس چھوٹ ختم کرکے ٹیکس کے دائرے کو وسیع کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور کم آمدن والے طبقات کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے سبسڈی کو کم سے کم کرنا شامل ہے۔

اسحاق ڈار نے اپنے مضمون میں ذکر کیا کہ حکومت نے گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران توانائی کے شعبے میں نمایاں طور پر ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ہیں۔ بجلی اور گیس کے شعبے میں ان ٹارگٹڈ سبسڈی واپس لے لی ہے جس کا مقصد نرخوں پر نظرثانی کے ذریعے بجلی کی پیداوار کی مکمل لاگت کی وصولی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 

آئی ایم ایف کی پاکستانی کی شرح نمو 0.5 فیصد رہنے کی پیشگوئی

پاکستان رواں برس کے مالیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکے گا: آئی ایم ایف کی رپورٹ جاری

سعودیہ کے بعد امارات سے مالی امداد کی یقین دہانی، پاکستان آئی ایم ایف معاہدے کے قریب

اس کے علاوہ حکومت نے ہدف پر مبنی سبسڈی کی طرف قدم بڑھایا ہے تاکہ غریب اور کمزور طبقے کو مہنگائی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اثرات سے نجات مل سکے اوراس کا بوجھ امیر طبقے پر پڑے۔

مزید یہ کہ حکومت نے یکم جنوری 2023ء سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے کفالت پروگرام کے تحت غریب افراد کے وظیفے میں 25 فیصد اضافہ کیا ہے جس سے بی آئی ایس پی بجٹ میں 40 ارب روپے کا اضافہ کرکے 400 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ حکومت پالیسی اور انتظامی اقدامات سمیت خسارے کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔

اس کے نتیجے میں کرنٹ اکائوٹ خسارہ رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں 31 مارچ 2023ء تک صرف 3.4 ارب ڈالر رہ گیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 13 ارب ڈالر تھا۔

توقع ہے کہ 30 جون 2023ء کو موجودہ مالی سال کے اختتام تک کرنٹ اکائونٹ خسارہ تقریباً 4.5 ارب ڈالر تک محدود رہے گا۔ اس سے زرمبادلہ ذخائر کو بہتر بنانے اور بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے تمام ٹیکس چھوٹ بتدریج واپس لے لی ہے۔ حکومت اس حقیقت کو مدنظر رکھتی ہے کہ یہ چھوٹ نہ صرف ٹیکس کے نظام میں بگاڑ پیدا کرتی ہے بلکہ محصولات کے اہداف میں بھی کمی کا باعث بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ نان مارک اپ اخراجات میں 19 فیصد کمی ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ سبسڈی اور گرانٹس کا واپس لیا جانا ہے۔ سٹیٹ بینک ملک میں مہنگائی کو روکنے کے لیے مالیاتی پالیسی کو سخت کرنے کے لیے آزادانہ طور پر اپنے فیصلے لے رہا ہے۔

وزیر خزانہ نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول ایگریمنٹ (ایس ایل اے) پر جلد دستخط کیے جائیں گے جس کے بعد آئی ایم ایف بورڈ کے نویں جائزے کی منظوری دی جائے گی۔

تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف اَب بھی پاکستان کی پیش رفت سے مطمئن نہیں۔ توقع ہے کہ پاکستان افراط زر کو قابو کرنے کے لیے شرح سود میں مزید اضافہ کرے گا۔ گزشتہ ماہ افراط زر 36 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی جس سے عام شہری کے حالات مزید مشکل ہو گئے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here