اسلام آباد: جامشورو کول پاور لمیٹڈ (جے سی پی ایل) کے 660 میگاواٹ یونٹ کو شدید نوعیت کے تکنیکی، قانونی اور کمرشل چینلنجز کا سامنا ہے جبکہ حکومت کی کوشش ہے کہ اس یونٹ کو چلانے کیلئے کے الیکٹرک کے ساتھ معاہدہ ہو جائے۔
وزارت توانائی کی پاور ڈویژن کی طرف سے قائم کردہ ایک تکنیکی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں کے الیکٹرک کو بتایا گیا ہے کہ حکومت سرمایہ کاروں کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کرنے کی کوشش کرے گی تاہم اس کی یقین دہانی نہیں کرائی جا سکتی۔
جامشورو کول پاور لمیٹڈ اگست 1998ء میں شروع ہوا تھا اور 1999ء سے واپڈا کی زیرملکیت ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کے الیکٹرک نے کراچی کو بجلی کی فراہمی بڑھانے کیلئے اس کا دوسرا یونٹ لگانے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ حکومت نے کمپنی حکام کو جامشورہ جا کر جگہ دیکھنے اور اس حوالے سے تجاویز جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
15 مارچ کو تکنیکی کمیٹی کے اجلاس میں کے الیکٹرک کی تجاویز اور سائٹ وزٹ رپورٹ کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا گیا۔ اس دوران سب سے بڑا مسئلہ سامنے آیا کہ پاور یونٹ لگانے کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا کیونکہ اس کیلئے بڑی رقم کی ضرورت تھی۔
پرافٹ کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق اس حوالے سے کچھ پیشرفت ضرور ہوئی کیونکہ تکنیکی کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ زمین کی فوری طور پر واپڈا سے جے پی سی ایل کو منتقلی کا عمل شروع کیا جائے۔
اس کے باوجود فنانسنگ کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود ہیں۔ پہلے یہ طے پایا تھا کہ پاور ڈویژن سرمایہ کاروں اور قرض دہندگان کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کرے گی جن میں ایشیائی ترقیاتی بینک، سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ اور کویت فنڈ فار عرب اکنامک ڈویلپمنٹ شامل ہیں۔
تاہم حالیہ اجلاس میں پاور ڈویژن کی جانب سے کہا گیا ہے حکومت سرمایہ کاروں کے ساتھ براہ راست بات کرے گی اور نا ہی سرمایہ کاری کے حوالے سے یقین دہانی کروا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ طویل اور مشکل مذاکراتی عمل سے پریشان ہے۔
دستاویزات کے مطابق کے الیکٹرک کو اس وقت 100 فیصد تھر کول استعمال کرنے کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ کمیٹی اجلاس کے دوران کمپنی کے پیش کردہ ڈیزائن میں بتایا گیا تھا کہ جامشورو کول پاور لمیٹڈ کے دوسرے یونٹ کیلئے 80 اور 20 فیصد کے تناسب سے درآمدی اور مقامی کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔
تاہم حکومت کا موقف ہے کہ مکمل طور پر مقامی کوئلے سے بجلی پیدا کی جائے جس کا مطلب ہے کہ کے الیکٹرک کو ڈیزائن میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ پاور پلانٹ میں کئی قسم کی تکنیکی تبدیلیاں بھی کرنا پڑیں گی۔ ان مسائل کی بنا پر 60 اور 40 کے تناسب سے یا پھر 70 اور 30 کے تناسب سے درآمدی کوئلہ اور تھر کول استعمال کرنے کے حوالے سے سفارشات تیار کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
کے الیکٹرک نے اجلاس کے دوران یہ بھی بتایا کہ مغربی قرض دینے والے اداروں کی جانب سے کول پروجیکٹس کو قرضہ نہ دینے کی وجہ سے ضروری ہے کہ حکومت سعودی اور کویتی فنڈز سے بات کرے۔ تاہم سیکریٹری پاور ڈویژن کے کسی قسم کی یقین دہانی سے انکار کر دیا۔
اس پر کے الیکٹرک حکام کا کہنا تھا کہ وہ حکومت سے گارنٹی نہیں مانگ رہے اور خود ہی سرمائے کا بندوبست کر لیں گے۔ تاہم سعودی اور کویتی فنڈز کے ساتھ ایک اجلاس ضرور کروا دیا جائے جس پر سرکاری حکام نے آمادگی ظاہر کر دی۔
اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ نیا یونٹ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت لگایا جائے گا اور اس کی ملکیت جامشورو کول پاور لمیٹڈ اور نجی مالکان کے پاس ہو گی۔