چین کی آبادی میں کمی کیسے عالمی معیشت کو متاثر کر سکتی ہے؟

1239
China’s falling population growth and the global economy

15 نومبر 2022ء وہ دن تھا جب کرہ ارض پر انسانوں کی تعداد آٹھ ارب ہو گئی اور ان آٹھ ارب میں سے ہر پانچواں شخص چین میں رہتا ہے کیونکہ 1950ء میں جب اقوام متحدہ نے دنیا کی آبادی کے اعدادوشمار شائع کرنا شروع کیے تب بھی چین کی آبادی سب سے زیادہ تھی۔

لیکن اَب چین کی آبادی میں غیر محسوس انداز میں کمی آ رہی ہے۔ مثال کے طور پر چین کے نیشنل بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق 2021ء میں عوامی جمہوریہ چین کی ابادی ایک ارب اکتالیس کروڑ تیس لاکھ افراد پر مشتمل تھی لیکن 2022ء میں ایک ارب اکتالیس کروڑ بیس لاکھ رہی۔ یعنی ایک سال میں تقریباََ دس لاکھ افراد کم ہوئے۔

1961ء کے بعد پہلی بار چین کی آبادی بڑھنے کی شرح منفی رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آبادی تو بڑھی ہے لیکن اس کا رجحان منفی رہا ہے۔ ماہرین اس منفی شرح اضافہ کا ذمہ دار 1980ء کی ’ایک بچہ پالیسی‘ کو قرار دیتے ہیں جو 2015ء تک جاری رہی۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ ’وَن چائلڈ پالیسی‘ سراسر غلط تھی اور آبادی میں منفی اضافہ کی دیگر کئی وجوہات میں سے بنیادی وجہ یہی پالیسی تھی۔ ’ایک بچہ پالیسی‘ کے علاوہ چین دنیا کے کم ترین شرح پیدائش والے ملکوں میں بھی شامل ہے۔ 2020ء میں چین میں شرح پیدائش 1.28 فیصد تھی۔

آبادی کا یہ مسئلہ چین کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کیلئے بھی خطرہ بن سکتا ہے اور اس کے اثرات بین الاقوامی مینوفیکچرنگ اور کنزیومر مارکیٹس پر پڑیں گے۔

دراصل 1980ء میں چینی حکومت کو محسوس ہوا کہ آبادی تیز رفتاری سے بڑھتی رہی تو مستقبل میں خوراک کے مسائل اور قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔ زرعی پیداوار ملکی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہے گی اور خزانے کا ایک بڑا حصہ بڑی آبادی کو کھلانے پلانے پر خرچ ہو جائے گا لہٰذا جیسے بھی ہو آبادی پر قابو پایا جانا چاہیے۔

آبادی پر قابو پانے کیلئے ’ایک بچہ پالیسی‘ لاگو کر دی گئی۔ جب چینی جوڑوں نے دیکھا کہ ایک ہی بچہ پیدا کرنا ہے تو کیوں نہ بیٹا پیدا کر لیا جائے۔

یوں اگلے تیس پینتیس سال تک مسلسل بیٹے پیدا کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں بہت بڑا صنفی خلاء پیدا ہو گیا۔ یعنی خواتین کم اور مرد زیادہ ہو گئے۔ اب صورت یہ ہے کہ تین کروڑ چینی مردوں کیلئے دلہن تلاش کرنا ایک مسئلہ بن گیا ہے۔

دوسری طرف یہی صنفی خلاء مستقبل کے ایک اور مسئلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ وہ یہ کہ جب خواتین ہی نہیں ہوں گی تو بچے کیسے پیدا ہوں گے؟ لہٰذا ہر گزرتے سال کے ساتھ آبادی نیچے آتی جائے گی۔

صنفی خلاء اور آبادی کی منفی شرح اضافہ کو دیکھ کر چینی حکومت کا ماتھا ٹھنکا اور 2016ء میں دو بچے اور 2021ء میں تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن گزشتہ تقریباََ چالیس سالوں سے چلی آ رہی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے ایک بچہ پیدا کرنا چینی خانداںوں کی روایت کا حصہ بن چکا تھا۔ اَب سرکاری اجازت کے باوجود نوجوان جوڑے ایک سے زائد بچے پیدا کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ’ایک بچہ پالیسی‘ کے تحت پوری دو نسلیں جوان ہو گئیں۔

چینی حکومت نے 2021ء میں تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دی لیکن اس کے باوجود 2022ء میں شرح پیدائش بہت کم رہی۔

چینی نوجوان جوڑے اس لیے بھی زیادہ بچے پیدا نہیں کرنا چاہتے کیونکہ طرز زندگی بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ چین کے ایک چھوٹے شہر میں گھر خریدنے کا مطلب ہے کہ اگلے تیس سال اس کی قسطیں ادا کرنا ہوں گی۔ البتہ دیہی علاقوں میں صورت حال قدرے مختلف ہے اور گھر سستے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: 

امریکا سمارٹ فون مینوفیکچرنگ میں چین سے پیچھے کیوں؟

چینی ارب پتی پراسرار طور پر غائب کیوں ہو رہے ہیں؟

پاکستان کو چھوڑیں، چین امریکا میں بھی اربوں ڈالر کے اثاثوں کا مالک

پھر بھی دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو بچوں کی یونیورسٹی کی تعلیم یا روزگار کیلئے شہروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے اور شہروں میں رہائش اور دیگر ضروریات زندگی خاصی مہنگی ہیں۔

گزشتہ تیس سالوں میں چین کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر نے خوب ترقی کی ہے لیکن 2022ء میں قرضوں اور کووڈ کی وجہ سے یہ بحران کا شکار ہو گیا۔ گھر پہلے ہی مہنگے تھے۔ رئیل اسٹیٹ کے بحران نے مزید مہنگے کر دیے۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ چین میں بوڑھے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کام کرنے والی نوجوان آبادی کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ایک جانب حکومت کو بوڑھوں کی سماجی بہبود اور پنشن وغیرہ پر زیادہ اخراجات کرنا پڑ رہے ہیں تو دوسری جانب پیداواری استعدادِ کار (Productivity) نیچے آ رہی ہے۔

کام کرنے والی آبادی میں کمی کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت کی ٹیکس آمدن کم ہو جائے گی جبکہ اخراجات بڑھتے جائییں گے۔ نتیجتاََ حکومت کو بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چین دنیا کی فیکٹری کہلاتا ہے کیونکہ یہ دنیا کو سستی افرادی قوت فراہم کرتا ہے۔ یہ گزشتہ پچیس تیس سالوں سے عالمی مینوفیکچرنگ اور رسد کا مرکز ہے۔ ہر بڑی کمپنی سستی افرادی قوت کی وجہ سے چین میں اپنی مصنوعات بنانے کیلئے فیکٹری لگانے کو ترجیح دیتی ہے۔ آپ کو آئی فون اور سولر پینلز سے لے کر کاروں پر’میڈ اِن چائنا‘ لکھا ملے گا۔ چین میں بنی چیزیں کم پیداواری لاگت کی وجہ سے باقی ملکوں کے مقابلے میں سستی بھی ہوتی ہیں۔

سیمی کنڈکٹرز کی عللمی منڈی کو دیکھیں تو چین کا حصہ 15 فیصد ہے۔ ٹیک اور آٹو مینوفیکچرنگ کی وجہ سے یہ 54 فیصد کے ساتھ چِپ اور سیمی کنڈکٹرز کا سب سے بڑا استعمال کنندہ بھی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر سالانہ ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے سیمی کنڈکٹرز فروخت ہوتے ہیں جن میں سے تقریباََ دو سو چالیس ارب ڈالر کے سیمی کنڈکٹرز چین میں فروخت ہوتے ہیں کیونکہ دنیا کی تمام بڑی ٹیک اور آٹو کمپنیاں چین میں اپنی مصنوعات تیار کرتی ہیں۔

یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ سستی افرادی قوت چینی معیشت کا انجن ہے لیکن اگر اس انجن کو بند کر دیا جائے یا اس کی رفتار کم کر دی جائے تو پہلا جھٹکا سستی چینی افرادی قوت پر انحصار کرنے والے مینوفیکچررز کو لگے گا اور دوسرا سستی ’میڈ اِن چائنا‘ مصنوعات خریدنے والے صارفین کو۔ کیونکہ مینوفیکچررز مہنگی افرادی قوت کے اخراجات بالآخر صارفین کی جیب سے ہی وصول کریں گے جس کی وجہ سے چیزیں مزید مہنگی ہو جائیں گی۔

چین کے اس مسئلے پر بھلے ہماری نظر نہ جائے لیکن دنیا اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ غیرملکی کمپنیاں اپنے کاروباری ماڈلز میں تبدیلیاں لا کر متبادل ذرائع پر غور شروع کر چکی ہیں کہ آیا وہ چین میں مینوفیکچرنگ جاری رکھیں یا کسی اور سستے ملک میں منتقل ہو جائیں۔

چین کے بعد سستی افرادی قوت کیلئے دنیا کی اگلی منزل بھارت ہے جو رواں سال آبادی میں چین سے آگے نکل جائے گا اور اسے آبادی کی منفی شرح اضافہ کا مسئلہ بھی درپیش نہیں بلکہ اگلے چند سالوں میں بھارت میں کام کرنے کی عمر کو پہنچنے والی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہو گی۔

بھارت کی 66 فیصد آبادی پینتیس سال سے کم عمر ہے۔ تقریباََ اکیاسی کروڑ کے لگ بھگ پڑھی لکھی بھارتی افرادی قوت آئندہ دس سالوں میں اپنے ملک کو بین الاقوامی ورکشاپ بنا سکتی ہے۔

لیکن صرف بڑی نوجوان آبادی ہونا ہی معیشت کیلئے فائدہ مند نہیں بلکہ معیشت کا تنوع، بنیادی ڈھانچہ، سرمایہ کاری کی سہولیات اور صنفی مساوات سمیت کئی عوامل مشترکہ طور پر کسی معیشت کو اوپر اٹھاتے ہیں۔ بھارت اِن مسائل کو حل کرکے آئندہ دہائیوں میں چین کی جگہ ضرور لے سکتا ہے۔

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ چین عمر میں اضافے کی وجہ سے اپنی آبادی میں آنے والی کمی کو روک تو نہیں سکتا۔ نا ہی زیادہ بچے پیدا کرنا اس کا حل ہے کیونکہ بچے نا تو کام کرتے ہیں نا ہی ٹیکس دیتے ہیں۔

البتہ چین کو ایسی معاشی اور سماجی اصلاحات کی ضرورت ہے کہ یہ کم افرادی قوت سے بھی پیداواری استعداد کار میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر افرادی قوت کی رسد بالکل کم ہو جائے اور خدشہ پیدا ہو جائے کہ اَب بین الاقوامی کمپنیاں چین سے نکل سکتی ہیں تو چینی حکومت پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ملکوں سے سستی افرادی قوت درآمد کر کے اس مسئلے کا سدباب کر سکتی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here