ہم پاکستانیوں کی عادت ہے کہ دو چار چھینکیں اور ہلکا سا جسم گرم ہوا تو کسی ڈاکٹر کو دکھائے بغیر خود ہی معالج بن کر اینٹی بائیوٹکس پھانکنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ طریقہ آسان ضرور ہے لیکن ہے فضول اور نقصان دہ۔
آپ کو شائد علم نہیں کہ اینٹی بائیوٹکس کا غیرضروری اور غلط استعمال انسانوں اور جانوروں میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت پیدا کر رہا ہے۔ یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے جو آگے چل کر صحت اور معیشت سے متعلق شدید نوعیت کے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔
آج کل بیکٹریا سے پھیلنے والی بیماریوں جیسا کہ ٹی بی، نمونیا اور گنوریا وغیرہ کے علاج میں اس لیے مشکلات پیش آ رہی ہیں کیونکہ ان بیکٹریا کو ختم کرنے والی اینٹی بائیوٹکس کم موثر ہو چکی ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اینٹی بائیوٹک ادویات بیکٹریا سے ہونے والے انفیکشن کے علاج کیلئے استعمال ہوتی ہیں لیکن اگر بیکٹریا اِن ادویات کے خلاف مزاحمت کے قابل ہو جائیں تو ایسی صورت حال کو اینٹی بائیوٹک مزاحمت (antibiotic resistance) کہا جائے گا اور اس کا علاج مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے مشیرِ صحت رہنے والے ڈاکٹر فیصل سلطان کہتے ہیں کہ ’’جب کچھ جاندار جیسا کہ بیکٹیریا وغیرہ نمو پاتے ہیں تو ان کے سیلز میں ایسی تبدیلیوں کا امکان ہوتا ہے جس سے وہ کچھ کیمیکلز کے خلاف مزاحمت کے قابل ہو سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا ’’بیکٹریا بے شمار قسم کے ہوتے ہیں۔ ان کے سیلز میں ہر وقت تقسیم اور پیدائش کی وجہ سے تغیر پذیری (mutation) جاری رہتی ہے۔ یہ عمل انہیں اینٹی بائیوٹکس ادویات کے خلاف ممکنہ مزاحمت فراہم کرتا ہے اور لمبے عرصے تک زندہ رہنے کے قابل بناتا ہے بلکہ ایسے بیکٹریا بھی مزاحمت کر سکتے ہیں جن کا پہلے کبھی انسانوں یا اینٹی بائیوٹک ادویات کے ساتھ تعامل بالکل بھی نہ ہوا ہو۔‘‘
اینٹی بائیوٹکس مزاحمت پیدا میں سب سے بڑا عمل دخل تو انسانوں کو ہے کیونکہ وہ ان ادویات کے استعمال میں لاپرواہی کرتے ہیں۔ جانورں کو بھی یہ ادویات مسلسل اور غیرضروری طور پر زیادہ مقدار میں دی جاتی ہیں۔
ظاہر ہے ایسے بیکٹریا جن پر اینٹی بائیوٹکس اثر نہ کریں، ان کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کا علاج مشکل ہو جائے گا جس کی وجہ سے متاثرہ لوگوں کے طبی اخراجات، ہسپتالوں میں قیام کے دورانیے اور شرح اموات میں اضافہ ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے: خون عطیہ کرنے کی اربوں ڈالر کی مارکیٹ، امریکیوں کی آمدن کا ذریعہ
اینٹی بائیوٹک مزاحمت کا مسئلہ محض پاکستان کا نہیں، پوری دنیا کا ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ ’اینٹی بائیوٹکس کے اثرات کم ہونے کے باعث نمونیا، ٹی بی اور مضر خوراک سے ہونے والی پیٹ کی بیماریوں کا علاج مشکل ہو رہا ہے اور بعض اوقات ناممکن۔ اور یہ فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔‘
ترقی پذیر دنیا میں صورت حال اس لیے بھی سنگین ہو رہی ہے کیونکہ اینٹی بائیوٹکس بآسانی دستیاب ہیں۔ پھر مرغبانی اور مویشی پالنے جیسے شعبوں میں اینٹی بائیوٹکس کے بے جا استعمال سے یہ انسانی خوراک میں شامل ہو کر بھی نقصان دہ نتائج پیدا کر رہی ہیں۔
پاکستان جیسے ملکوں میں تو یہ ادویات میڈیکل سٹورز پر ڈاکٹری نسخے کے بغیر ہی مل جاتی ہیں۔ علاج معالجے کے بنیادی اصولوں کے برعکس اکثر طبی کارکن اور جانوروں کے معالج بھی غیر ضروری طور پر اینٹی بائیوٹکس تجویز کر دیتے ہیں۔ اُن کا یہ وطیرہ بھی اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت والے بیکٹریا کے پھیلائو کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ہیلتھ اکانومسٹ ڈاکٹر نعمان الحق نے وجوہات کی نشاہدہی کرتے ہوئے بتایا کہ بنیادی طبی اصولوں سے ہٹ کر نسخہ تجویز کرنے، مریضوں میں طبی شعور کی کمی، مرض کی تشخیص کیلئے سہولیات کی عدم فراہمی، اینٹی بائیوٹکس کی غیرقانونی فروخت، ادویات کے شعبے میں نگرانی کا کمزور طریقہ کار اور جانوروں میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال ایسی بڑی وجوہات ہیں جن کے باعث ترقی پذیر ملکوں میں اینٹی بائیوٹکس مزاحمت بڑھ رہی ہے۔
خطرہ کس حد تک ہے؟
ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق ’پہلا خطرہ تو یہ ہے کہ پہلے اینٹی بائیوٹک ادویات سے جن بیماریوں کا علاج بآسانی ہو جاتا تھا وہ اب مشکل یا پھر لاعلاج ہو جائیں گی۔ جدید ادویات کا انحصار بھی موثر اینٹی بائیوٹکس پر ہے۔ جدید جراحی، انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں علاج، بچوں کی پیدائش، کینسر کا علاج اور اعضاء کی پیوند کاری کسی طور پر بھی موثر اینٹی بائیوٹکس کے بغیر ممکن نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد افراد براہ راست ادویات کے خلاف مزاحم بیکٹریا کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کا شکار ہو کر ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور پچاس لاکھ تک اموات بالواسطہ وجوہات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
اس طرح یہ مسئلہ عالمی سطح پر صحت کے حوالے سے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی جڑی ہے کہ نئی تحقیق کے نتیجے میں بننے والی اینٹی بائیوٹک ادویات ترقی پذیر ملکوں میں بہت کم آ رہی ہیں۔
گو کہ یہ عالمی مسئلہ ہے لیکن ترقی پذیر ملکوں میں اس کے اثرات زیادہ سنگین ہیں۔ وہاں کچھ اقسام کے بیکٹریا میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت زیادہ پائی جا رہی ہے کیونکہ ان ملکوں میں نئی تحقیق کی روشنی میں آنے والی اینٹی بائیوٹکس تک رسائی محدود ہے اور وہ مہنگی بھی ہیں۔ اس لیے یہ تمام مسائل مجموعی طور پر تباہ کن صورت حال پیدا کر سکتے ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے صحت کا انتباہ ہے کہ ’کسی قسم کے ہنگامی اقدامات کیے بغیر دنیا اینٹی بائیوٹک کے بعد کے دور میں داخل ہو رہی ہے جس میں معمولی بیماریاں اور زخم بھی انسانوں کو ہلاک کر دیں گے جو ماضی میں قابل علاج تھے۔
ڈاکٹر فیصل سلطان کہتے ہیں کہ ’اس ساری صورت حال کا براہ راست اثر معیشت اور صحت کے نظام پر ہو گا۔ علاج معالجے پر اٹھنے والے اخرجات حد سے بڑھ جائیں گے اور کینسر کا علاج، اعضاء کی پیوند کاری اور جراحی تک سب کچھ مشکل ہو جائے گا۔‘
ڈاکٹر نعمان الحق کے مطابق ’اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی وجہ سے طبی اخراجات اس لیے بھی بڑھیں گے کیونکہ ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد اور قیام کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔ ادویات مہنگی ہو جائیں گی۔ تشخیصی عمل اور ڈاکٹروں سے مشاورت کا معاوضہ بھی زیادہ ہو جائے گا اور اس کا بوجھ مریضوں کی جیب پر پڑے گا۔‘
عالمی بینک کے مطابق ’اینٹی بائیوٹک مزاحمت کا کم از کم بوجھ بین الاقوامی سطح پر علاج معالجے کے اخراجات میں 330 ارب ڈالر کا اضافہ کر سکتا ہے اور اگر یہ بوجھ کچھ زیادہ ہوا تو اخراجات اندازاََ ایک کھرب 20 ارب ڈالر تک بھی جا سکتے ہیں۔‘
صرف یورپی یونین کو اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی وجہ سے سالانہ ڈیڑھ ارب یورو اضافی طبی اخراجات کرنا پڑتے ہیں اور شہریوں کی استعدادِ کار میں جو کمی آتی ہے اس کا نقصان الگ سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اینٹی بائیوٹک مزاحمت سے پیدا شدہ طبی اور معاشی مسائل 2030ء تک مزید دو کروڑ چالیس لاکھ افراد کو غریب کر دیں گے اور سب سے زیادہ متاثر کم آمدن والے ممالک ہوں گے۔
مسئلے کے تدارک کیلئے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟
بین الاقوامی ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ پہلے تو ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک کم از کم تجویز کریں۔ پھر لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ استعمال کم کر دیں۔
بالفرض نئی اینٹی بائیوٹکس مارکیٹ میں آ بھی جائیں تو بھی لوگوں کے رویے بدلے بغیر یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔
اب رویے کیسے بدلے جائیں؟ ظاہر ہے اس کیلئے آگاہی دینا ہو گی تاکہ لوگ بیماریاں پھیلانے کا سبب نہ بنیں۔ اپنی اور بچوں کی ضروری ویکسی نیشن بروقت کروائیں۔ ہاتھ باقاعدگی سے دھوئیں اور ایک صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کریں۔
مسئلے کی اصل جڑ اینٹی بائیوٹکس کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہے۔ اس جڑ کو کاٹنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے انفرادی اقدامات سے ہٹ کر پالیسی سازوں، طبی ماہرین، ادویہ ساز صنعت اور زرعی شعبے کو مل کر مجموعی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ یہ بھی یقینی بنانا ہو گا کہ جانوروں کو بلا ضرورت اینٹی بائیوٹکس نہ دی جائیں اور لوگوں کو اس حوالے سے مکمل آگاہی ہو۔
معاشرے کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کا بے جا اور ضرورت سے زیادہ استعمال ان کی صحت اور معیشت کیلئے کس قسم کے گمبیر مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
گو کہ پاکستان میں اس حوالے سے قومی سطح کا قابل عمل منصوبہ موجود ہے لیکن ساری بات عمل درآمد پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔
تحریر: بخت نور