کیا آپ کو معلوم ہے کہ جنوبی کوریا کی مجموعی برآمدات کا پانچواں حصہ صرف ایک کمپنی برآمد کرتی ہے اور وہ ہے سام سنگ۔
سام سنگ اپنی مارکیٹ ویلیو کے لحاظ سے دنیا کی بیسں بڑی کمپنیوں میں شامل ہے جبکہ الیکٹرونکس انڈسٹری میں ایپل کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
سام سنگ کی بنیاد یکم مارچ 1938ء کو جنوبی کوریائی لینڈ لارڈ کے بیٹے لی بیونگ چُل (Lee Byung-chul) نے ایک چھوٹی سی ٹریڈنگ کمپنی بنا کر رکھی جو خشک مچھلی، نوڈلز اور ایسی ہی دیگر چیزیں ملک کے مختلف علاقوں میں سپلائی کرتی تھی۔
کورین زبان میں’’سام سنگ‘‘ کا مطلب ہے تین ستارے۔ اس کا پہلا لوگو بھی تین ستاروں پر مشتمل تھا۔
1945ء تک سام سنگ چین اور دیگر ہمسایہ ملکوں کو بھی اپنی مصنوعات بھیجنے لگی۔ 1950ء میں جب جنگِ کوریا شروع ہوئی تو یہ ملک کی دس بڑی کمپنیوں میں شامل تھی۔
شمالی کوریا کی فوج نے سیئول پر قبضہ کر لیا تو مسٹر لی کو سام سنگ کا ہیڈ آفس بوسان منتقل کرنا پڑا جس کا کمپنی کو خاصا فائدہ پہنچا کیونکہ بوسان میں امریکی فوج بڑی تعداد میں موجود تھی اور فوجی سازوسامان کی منتقلی کا ٹھیکہ مسٹر لی کو مل گیا۔
جنگ کے بعد سام سنگ گروپ نے پہلی شوگر ریفائنری اور ٹیکسٹائل مل لگائی جو اُس وقت کوریا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل فیکٹری بنی۔
پچاس کی دہائی کے آخر تک سام سنگ گروپ اتنا بڑا بن چکا تھا کہ اس نے جنوبی کوریا کے تین بڑے بینک، ایک انشورنس کمپنی اور دو تین سیمنٹ اور کھاد ساز فیکٹریاں خرید لیں۔ ساٹھ کی دہائی میں کچھ مزید کمپنیاں خرید لیں۔
16 مئی 1961ء کی فوجی بغاوت کے وقت مسٹر لی جاپان میں تھے، وہ کچھ عرصہ ملک واپس نہ لوٹے کیونکہ فوجی جنرل پارک چُنگ ہی (Park Chung-hee) نے اقتدار سنبھالتے ہی معاشی اصلاحات کے نام پر سام سنگ کی ایکوئزیشن سے تین بینکوں کا کنٹرول واپس لے لیا۔
یہ بھی پڑھیے:
آرامکو: ایک کمپنی جس نے سعودی عرب کی قسمت بدل دی
صرف ایک بھارتی کمپنی کی آمدن پاکستان کی مجموعی برآمدات کے آدھے سے بھی زیادہ
دراصل جنرل پارک ہی تھے جنہوں نے معاشی اصلاحات کر کے جنوبی کوریا کو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ اور صنعتی ملک بنایا۔
کورین زبان میں ایک لفظ ہے ’’شے بُو (Chaebol)۔ جس کا مطلب ہے کسی شخص یا خاندان کی ملکیت بہت بڑا بزنس جس کے تحت مختلف قسم کی کمپنیاں چلتی ہوں۔
جنوبی کوریا کی پوری معیشت تقریباََ 20 سے زائد شے بُوز چلا رہے ہیں جن میں سے کچھ ساٹھ کی دہائی میں جنرل پارک کی معاشی اصلاحات کے بعد قائم ہوئے اور سام سنگ اُن میں سے ایک ہے۔
اِن بڑی کارپوریشنز نے جنوبی کوریا کو معاشی طور پر محاورتاََ نہیں بلکہ حقیقتاََ ایشین ٹائیگر بنا دیا۔ ایشین ٹائیگر کی اصطلاح اُس ملک کیلئے استعمال ہوتی ہے جس کی معاشی ترقی کی رفتار ناقابل یقین حد تک تیز ترین ہو۔ ایک زمانے میں پاکستان کو بھی ایشین ٹائیگر کہا جانے لگا تھا لیکن پھر نا جانے کس کی نظر لگ گئی۔
جنرل پارک کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد مسٹر لی کوریا واپس لوٹے اور اگست 1961ء میں فیڈریشن آف کورین انڈسٹریز قائم کی اور اس کے بانی چیئرمین بن گئے۔
1969ء میں سام سنگ گروپ پہلی بار الیکٹرونکس کی صنعت میں داخل ہوا اور برقی آلات، سیمی کنڈکٹرز اور مواصلات کیلئے الگ الگ ڈویژنز قائم کیں۔ پہلی چیز جو سام سنگ کی برقیات کی ڈویژن سے بن کر نکلی وہ تھا ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی۔ اس کے ساتھ گھریلو استعمال کے آلات کی برآمد بھی شروع کر دی گئی۔
1969ء میں ہی سام سنگ انجنیئرنگ قائم ہوئی جو تیل صاف کرنے کے کارخانے، بجلی گھر، پانی صاف کرنے کے پلانٹ، پیٹرو کیمیکلز اور گیس پلانٹس لگاتی ہے۔
ستر کی دہائی میں سام سنگ گروپ نے اپنے ٹیکسٹائل بزنس کو مزید وسعت دے کر خام مال سے لے کر تیار مصنوعات تک سب کچھ خود بنانا شروع کر دیا۔
اسی دوران سام سنگ ہیوی انڈسٹریز، سام سنگ شِپ بلڈنگ اور سام سنگ ٹیک وِن (Techwin) کے نام سے مزید کمپنیاں قائم کی گئیں اور بھاری صنعتوں، کیمیائی مرکبات، پیٹرولیم اور ادویہ سازی کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی گئی جبکہ کوریا سیمی کنڈکٹرز نامی کمپنی میں پچاس فیصد حصص خرید لیے۔
1978ء میں سام سنگ نے ہوا بازی کا شعبہ قائم کیا اور جہازوں کے انجن اور پرزہ جات کے علاوہ خلائی گاڑیوں کے لیے پرزہ جات بنانا شروع کر دیے۔ مارچ 1979ء میں شیلا (Shilla) ہوٹلز اینڈ ریزورٹس کی بنیاد رکھی جو دنیا بھر میں لگژری ہوٹل چلاتی ہے۔
1985ء میں سام سنگ ڈیٹا سسٹمز، جو اَب سام سنگ ایس ڈی ایس کہلاتی ہے، قائم ہوئی جس نے گروپ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی انڈسٹری میں عالمی سطح کی کمپنی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اسی دوران سام سنگ نے تحقیق اور ترقی کیلئے دو ادارے قائم کیے گئے جنہوں نے کمپنی کی ٹیکنالوجی لائن کو برقیات، سیمی کنڈکٹرز، ہائی پولیمر کیمیکلز، جینیاتی انجنئیرنگ ٹولز، مواصلات کیلئے پرزہ جات، ہوابازی اور خلائی استعمال کی ٹیکنالوجی اور نینو ٹیکنالوجی تک وسیع کر دیا۔
19 نومبر 1987ء کو سام سنگ کے بانی لی بیونگ چُل گزر گئے اور گروپ پانچ حصوں میں بٹ گیا۔ الیکٹرونکس بزنس لی بیونگ چُل کے بیٹے لی کُن ہی (Lee Kun-Hee) کے پاس اور چار کمپنیاں اُن کے دیگر بچوں کے پاس چلی گئیں۔
لی کُن ہی نے محسوس کیا کہ سام سنگ کوریائی معیشت میں تو ایک نمایاں مقام رکھتی ہے لیکن عالمی کمپنیوں کے ساتھ مقابلے کے قابل نہیں۔ نوے کی دہائی میں انہوں نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کا آغاز کیا اور اعلیٰ افسران کو حکم دیا کہ ’’اپنے بیوی بچوں کے علاوہ ہر چیز بدل ڈالو‘‘۔
انہوں نے کمپنی میں سرخ فیتے کی روایت ختم کرکے چھوٹے ملازمین کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اعلیٰ افسران کی غلطیوں کی نشاندہی کریں۔ خواتین کو اعلیٰ عہدے دیے۔ اور مصنوعات کی مقدار کی بجائے معیار پر زور دیا۔ اِن اصلاحات نے سام سنگ کو عالمی کی الیکٹرونکس مارکیٹ کی پانچ بڑی کمپنیوں میں شامل کر دیا۔
نوے کی دہائی میں سام سنگ سی اینڈ ٹی کارپوریشن تعمیرات کے شعبے کا بڑا نام بن گئی۔ یہ کمپنی ملائیشیا کے پیٹرو ناس ٹاورز، سعودی سٹاک ایکسچینج ٹاور تداول، ڈھاکا انٹرنیشنل ائیرپورٹ، ریاض میٹرو اور سب سے مشہور بُرج خلیفہ کی تعمیر میں شامل رہی ہے۔
2007ء میں سام سنگ نے سمارٹ فون بنانے کے شعبے میں قدم رکھا اور 29 جون 2009ء کو پہلا گلیکسی فون متعارف کرایا۔ گلیکسی سیریز کسی بھی کمپنی کی اَب تک کی طویل مدت تک چلنے والی سیریز ہے۔
سام سنگ نے ایپل کے ابتدائی ماڈلز کیلئے چپ سیٹ اور مائیکرو پروسیسرز فراہم کیے اور 2013ء میں پہلا گلیکسی ٹیبلٹ اور پہلی سمارٹ واچ متعارف کروائی۔
2011ء میں سام سنگ دنیا کی دوسری بڑی سیمی کنڈکٹر بنانے والی کمپنی بن گئی جبکہ 2012ء میں اس نے موبائل فونز کی عالمی مارکیٹ کا 25.4 فیصد حاصل کرکے نوکیا کو پیچھے چھوڑ دیا اور دنیا کی پہلی بڑی موبائل فون کمپنی بن گئی۔ 2013ء میں اس کی آمدن جنوبی کوریا کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 17 فیصد تھی۔
2018ء میں سام سنگ نے بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی سمارٹ فون بنانے والی فیکٹری لگانے کا آغاز کیا۔
سام سنگ نے لکی موٹر کارپوریشن کے ساتھ جولائی 2021ء میں ہونے والے معاہدے کے نیتجے میں پاکستان میں بھی سمارٹ فون بنانے کا یونٹ لگایا جس سے بنائے گئے فونز اب ناصرف ملک میں دستیاب ہیں بلکہ برآمد بھی کیے جا رہے ہیں۔
اِس وقت سام سنگ گروپ کے تحت تقریباََ 80 کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں زیادہ تر اربوں ڈالر مالیت کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔
2022ء میں سام سنگ الیکٹرونکس 107 ارب ڈالر کی برانڈ ویلیو کے ساتھ دنیا کے بہترین برانڈز میں پانچویں نمبر پر رہی۔
سال 2022ء میں فوربز نے سام سنگ کو گلوبل بیسٹ ایمپلائرز کی فہرست میں پہلے، بیسٹ ایمپلائرز فار نیو گریجوایٹس کی لسٹ میں 233ویں اور دنیا کی بہترین دو ہزار کمپنیوں کی فہرست میں 14ویں نمبر پر رکھا۔
سال 2022ء میں سام سنگ کی آمدن 244.2 ارب ڈالر، اثاثوں کی مالیت 358 ارب ڈالر اور منافع 34.3 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جبکہ اس کی فوربز رئیل ٹائم مارکیٹ ویلیو 367.26 ارب ڈالر رہی۔