اگر آپ زمین کے باشندے ہیں اور ایشیا میں نہیں رہتے تو آپ ایک اقلیت ہیں۔
جی ہاں، دنیا کے تقریباََ آٹھ ارب انسانوں میں سے 60 فیصد ایشیا میں رہتے ہیں۔ ایشیا کی آبادی امریکا اور یورپ کی مجموعی آبادی سے تقریباََ پانچ گنا زیادہ ہے۔
گو کہ ایشیا کو ٹیکنالوجی اور معاشی طاقت کا اگلا مرکز کہا جا رہا ہے لیکن پھر بھی ایشیائی لوگ دھڑا دھڑ ایشیا کو چھوڑ کر دنیا کے دیگر خِطوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ورلڈ مائیگریشن رپورٹ کے مطابق 2020ء میں تارکینِ وطن کی تعداد انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ تقریباََ 28 کروڑ ریکارڈ کی گئی۔ یعنی دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریباََ چار فیصد۔
اگر اِن 28 کروڑ افراد کو اکٹھا کر کے ایک الگ ملک بنا دیا جائے تو وہ چین، بھارت اور امریکا کے بعد آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہو گا۔
2020ء کے ڈیٹا کے مطابق اپنا آبائی وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جانے والے 28 کروڑ تارکین وطن میں سے 40 فیصد کا تعلق ایشیا سے تھا۔
کووڈ 19 کے دوران لاک ڈائون اور سفری پابندیوں کی وجہ سے اس مہاجرت میں کسی قدر کمی آئی تاہم پابندیاں اٹھنے کے بعد اَب دوبارہ اس میں تیزی آ چکی ہے۔
اپنا وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں جا کر بسنے کی ہر کسی کی اپنی الگ وجہ ہوتی ہے لیکن سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی، سماجی جبر یا خاندانی مسائل وہ بڑے محرکات ہیں جن کی وجہ سے لوگ اپنا ملک چھوڑتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
تیل کے بغیر خلیجی عرب ملکوں کا مستقبل کیا ہو گا؟
پٹرول و ڈیزل کے بعد خوردنی تیل کا عالمی بحران بھی سر پر منڈلا رہا ہے
روس تو دور ہے مگر پاکستان اپنے ہمسائے ایران سے سستا تیل کیوں نہیں خریدتا؟
اب موسمیاتی تبدیلی بھی ایسا محرک سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنا آبائی علاقہ یا وطن چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔
ماضی اور حال کی بات کی جائے تو سیاسی عدم استحکام اور خانہ جنگی کی وجہ سے دنیا کی بڑی بڑی ہجرتیں ہوئیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم یا تقسیمِ ہند وغیرہ تو ماضی کی باتیں لگتی ہیں لیکن نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق کی جنگ، عرب بہار کے بعد شام، لیبیا اور یمن میں خانہ جنگی اور میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتلِ عام ہمارے سامنے کی مثالیں ہیں۔ اِن ملکوں کے لاکھوں باشندوں کو اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر ہمسایہ ممالک یا پھر دنیا میں جہاں سینگ سمائے جانا پڑا۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو عشروں کے دوران سیاسی عدمِ استحکام کے نتیجے میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے دنیا بھر میں دو کروڑ سے زائد افراد کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔
عراق جنگ کے بعد وہاں مختلف گروپوں کے درمیان خون ریز لڑائی ہو یا شام کی خانہ جنگی، اس کے نیتجے میں بے گھر ہونے والوں کی اکثریت ترکی میں رہتی ہے اور ترکی تقریباََ 37 لاکھ مہاجرین کو پناہ دینے والا واحد ملک ہے۔
اسی طرح معاشی بحران کی وجہ سے وینزویلا کے 18 لاکھ شہری کولمبیا میں رہنے پر مجبور ہیں۔
یہ تو جنگ اور تشدد کی مثالیں ہیں اور ایسے ماحول میں انسانی آبادی کا رہنا یقیناََ خطرے سے خالی نہیں لیکن ہم جو سوال اٹھا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ایشیائی لوگوں کی جانب سے ایشیا کو چھوڑنے کی کیا وجوہات ہیں؟
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 15 سے 24 سال کے نوجوانوں کی تعداد تقریباََ ایک ارب 20 کروڑ ہے جن میں سے تقریباََ 90 فیصد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ یہ تعداد 2030ء تک سات فیصد اضافے سے ایک ارب 30 کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہے۔
مذکورہ گروپ کے نوجوانوں کی بڑی اکثریت افریقہ اور دوسری بڑی اکثریت ایشیا میں رہتی ہے۔ ایک خطہ معاشی لحاظ سے پسماندہ ہے اور دوسرا ترقی پذیر۔ اس لیے ان خطوں کے نوجوان اچھی تعلیم اور بہتر روزگار کے مواقع کی تلاش میں اپنے آبائی ملکوں کو چھوڑ کر ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں اور ایشیا میں یہ رجحان سب سے زیادہ ہے بالخصوص کم آمدن والے ایشیائی ممالک میں۔
ترقی یافتہ دنیا کو شرح پیدائش میں کمی جیسے مسئلے کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے کام کرنے والے افراد کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ یعنی افرادی قوت کی تیزی سے بڑھتی قلت۔
افرادی قوت کی یہ قلت دنیا بھر میں ایک طرح کی ’’ٹیلنٹ وار‘‘ کو جنم دے رہی ہے۔ گو کہ ایشیا میں بھی جاپان اور جنوبی کوریا کو کم شرح پیدائش کے مسئلے کا سامنا ہے اور ان ملکوں میں بوڑھوں اور پنشن پر انحصار کرنے والوں کی تعداد زیادہ اور معاشرے کو کچھ کما کر دینے والوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اِس خلاء کو کم آمدن والے ایشیائی ممالک اپنے باصلاحیت نوجوان برآمد کر کے پُر کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آپ کے لوکیشن ڈیٹا کی اربوں ڈالر کی خفیہ مارکیٹ
امریکا سمارٹ فون مینوفیکچرنگ میں چین سے پیچھے کیوں؟
افرادی قوت کی قلت کی وجہ سے ترقی یافتہ دنیا کی توجہ کا مرکز خاص طور پر وہ ترقی پذیر ممالک ہیں جہاں تربیت یافتہ افرادی قوت ضرورت سے زائد ہے۔ اس حوالے سے ایشیا بالخصوص پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے زرخیز خطہ کون سا ہو سکتا ہے؟ ان ملکوں میں ناصرف اکثریتی آبادی نوجوانوں کی ہے بلکہ ٹیکنالوجی اور انٹرپرینیورشپ کے بہترین ذہن بھی دنیا کو یہاں سے میسر آ رہے ہیں۔
2022ء کے کے دوران تقریباََ سات لاکھ 65 ہزار پاکستانیوں نے سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کے سبب ملک چھوڑا۔ یہ تعداد 2021ء میں باہر جانے والے دو لاکھ 88 ہزار پاکستانیوں سے تقریباََ تین گنا زیادہ ہے لیکن فرق یہ ہے کہ 2022ء میں تقریباََ 92 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹرز، انجنیئرز اور آئی ٹی کے ماہر بھی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
دنیا میں سب سے زیادہ تارکین وطن بھارت سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2020ء میں 30 لاکھ بھارتی باہر گئے۔ اسی طرح 2022ء میں مستقل طور پر بھارتی شہریت چھوڑنے والوں کی بھی ایک قابل ذکر تعداد تھی۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2020ء میں 28 کروڑ تارکین وطن میں سے تقریباََ 9 کروڑ 30 لاکھ کا تعلق ایشیا سے تھا۔ امریکا، آسٹریلیا، انگلینڈ، کینیڈا، سعودی عرب، روس، متحدہ عرب امارات، جرمنی، سپین اور فرانس وہ دس ممالک تھے جہاں یہ سوا 9 کروڑ ایشیائی باشندے گئے۔
رواں سال سب سے زیادہ تارکین وطن اور مہاجرین نے جرمنی کا رخ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ جرمنی نے افرادی قوت کی قلت دور کرنے کیلئے اکتوبر 2022ء میں ویزا قوانین کو معتدل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کینیڈا نے سالانہ چار لاکھ افراد کو شہریت دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ایسی مراعات ایشیا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو متوجہ کرتی ہیں اور وہ اپنا ملک چھوڑ کر ترقی یافتہ ملکوں میں جانے کی تدابیر کرنے لگتے ہیں۔
اسی طرح ایشیا کی اندر بھی لوگ اپنا ملک چھوڑ کر امیر ایشیائی ملکوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ مثلاََ بھارت، بنگلہ دیش، فلپائن اور تھائی لینڈ سے خواتین گھریلو ورکرز اور نرسوں کی بڑی تعداد عرب اور خلیجی ملکوں میں کام کر رہی ہے۔ انہیں’’ملٹی نیشنل میڈز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
لیکن گھریلو ورکرز کا کام تو کم آمدن والا تصور کیا جاتا ہے اور قدرے کم پڑھے لکھے مردوخواتین اس میں جاتے ہیں۔ پھر بھی اس سے فرق تو پڑتا ہے کیونکہ آپ کے ملک کی کرنسی اور جس ملک میں آپ جا رہے ہیں وہاں کی کرنسی میں کافی فرق ہوتا ہے اور یہی فرق ہی دراصل اپنا ملک چھوڑنے کا محرک ہوتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایشیا بالخصوص انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور چین سے اعلیٰ تربیت یافتہ کمپیوٹر انجنیئرز، پروگرامرز اور ڈاکٹرز بھی باہر جا رہے ہیں۔ اس مسئلے کو برین ڈرین کہا جاتا ہے۔ یعنی ذہین ترین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بہتر مواقع کی سر زمین کی جانب نقل مکانی۔ پاکستان اور بھارت کا احوال تو ہم پہلے بتا چکے ہیں۔
چین میں اپنا ملک چھوڑ کر روزگار کیلئے باہر جانے والے چینیوں کی تعداد کسی قدر کم ہے لیکن چین میں ایک اور چیز دیکھی جا رہی ہے اور وہ ہے اندرونی مہاجرت۔
چھوٹے چینی شہروں کے نوجوان بہتر مواقع اور روزگار کیلئے بیجنگ اور اس جیسے دیگر بڑے اور ترقی یافتہ شہروں کا رخ کر رہے ہیں اور حیران کن طور پر داخلی طور پر نقل مکانی کرنے والے چینیوں کی تعداد دنیا بھر کے 28 کروڑ تارکین وطن سے بھی زیادہ ہے۔
دنیا کی 60 فیصد آبادی پر مشتمل ایشیا کی حکومتوں کو برین ڈرین کو روکنے کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ یوں تو معاشی ماہرین تسلی دیتے ہیں کہ برین ڈرین سے مجموعی طور پر ایشیا کو نقصان نہیں ہو گا لیکن اگر ایک ملک کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اسے بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے جب وہاں سے ذہین ترین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نکل جائیں گے۔
ظاہر ہے وسائل کم ہیں اور آبادی کئی گنا زیادہ۔ اس لیے ایشیائی حکومتوں کو آبادی اور وسائل کا مناسب توازن قائم کرنا ہو گا۔ نوجوانوں کی جدید ٹیکنالوجیز تک رسائی آسان بنانا ہو گی۔ انہیں کام کرنے کیلئے ویسا ہی سازگار ماحول فراہم کرنا ہو گا جس کا وہ کسی ترقی یافتہ ملک میں جانے کیلئے خواب دیکھتے ہیں۔