آپ کے لوکیشن ڈیٹا کی اربوں ڈالر کی خفیہ مارکیٹ

1399
hidden market of your location data

فرض کریں آپ صبح ناشتہ خریدنے کیلئے کسی نان چنے والے کے پاس گئے۔ ناشتہ کر کے دفتر پہنچے۔ دوپہر کو لنچ کیلئے فوڈ پانڈا سے کچھ آرڈر کر دیا اور شام کو دوستوں کے ساتھ کوئی فلم دیکھنے اور اچھا کھانا کھانے کا منصوبہ بن گیا۔

اب آپ جہاں بھی جا رہے ہیں ایک جاسوس مسلسل آپ کے تعاقب میں ہے۔ دن بھر کی سرگرمیوں کے بعد جب رات کو آپ بستر پر سونے کیلئے دراز ہوں تو یہی جاسوس آپ سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ گوگے کے نان چنے کیسے تھے؟ یا فوڈ پانڈا سے کچھ اور آرڈر کرنا چاہیں گے؟ یا آپ کا کیو سینما کا وزٹ کیسا رہا؟

دراصل یہ جاسوسی کر رہی ہوتی ہیں آپ کے فون میں موجود وہ سمارٹ ایپس جنہیں آپ نے اپنی لوکیشن کی نگرانی کرنے کی اجازت دے رکھی ہوتی ہے اور ان کے ساتھ اپنی کچھ معلومات سانجھی کر رکھی ہوتی ہیں۔

آپ انٹرنیٹ پر کیا دیکھ رہے ہیں، کیا خرید رہے ہیں، آن لائن کیا تلاش کر رہے ہیں اور کہاں آ جا رہے ہیں۔

یہ ایپس آپ کا لوکیشن ڈیٹا آپ کے علم میں لائے بغیر جمع کرتی ہیں اور یہی ڈیٹا ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کمپنیوں کو یا پھر سرکاری ایجنسیوں کو فروخت کر دیتی ہیں۔

کچھ ایپس ایسی بھی ہوتی ہیں جو چلتی ہی لوکیشن ڈیٹا پر ہیں جیسے کہ آپ کی آن لائن ٹیکسی کی ایپ یا پھر گوگل میپس۔

لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب آپ کا لوکیشن ڈیٹا ان سمارٹ ایپس سے کسی تھرڈ پارٹی کے پاس چلا جاتا ہے اور وہ تھرڈ پارٹی جیسے چاہے آپ کے علم میں لائے بغیر ڈیٹا استعمال کرنے کی مجاز ہے۔

یہ دائرہ کچھ یوں مکمل ہوتا ہے:

1۔ سمارٹ ایپس صارف کے موبائل فون سے لوکیشن ڈیٹا ریکارڈ کرتی ہیں۔

2۔ یہ ڈیٹا ایپس سے بروکرز خریدتے ہیں۔

3۔ بروکر سے ڈیٹا جمع کرنے والی کمپنیاں (collectors) خرید لیتی ہیں۔

4۔ اور اِن ڈیٹا جمع کرنے والی کمپنیوں سے کوئی اور کمپنی یا ادارہ خرید لیتا ہے۔

سمارٹ ایپ کے آگے سبھی تھرڈ پارٹی ہیں۔

اسی ڈیٹا کو استعمال میں لا کر سرکاری ادارے عوامی آگاہی کی مہم چلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی ضلع میں پولیو مہم شروع ہونے جا رہی ہے تو اس حوالے سے پیغامات صرف اُسی ضلع کے لوگوں کو بھیجے جائیں گے نا کہ پورے صوبے کے موبائل فون صارفین کو۔

ایسے ہی کوئی گروسری سٹور اپنے اردگرد کے علاقے کے لوگوں کا لوکیشن ڈیٹا خرید کر انہیں اپنی نئی پیشکش سے متعلق بتا سکتا ہے۔

ہم کسی قسم کی پیچیدہ تکنیکی بحث میں پڑے بغیر صرف اس موضوع پر بات کریں گے کہ اس لوکیشن ڈیٹا کی دنیا میں مارکیٹ کتنی بڑی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 

کیا دبئی ٹیکنالوجی کا اگلا عالمی مرکز بننے جا رہا ہے؟

امریکا سمارٹ فون مینوفیکچرنگ میں چین سے پیچھے کیوں؟

ایک رپورٹ کے مطابق 2021ء میں بین الاقوامی سطح پر لوکیشن ڈیٹا مارکیٹ کا حجم تقریباََ 15 ارب ڈالر تھا جو 2028ء تک تقریباََ 41 ارب ڈالر تک چلا جائے گا۔

اس وقت دنیا میں تقریباََ سات ارب چھبیس کروڑ افراد ایسے ہیں جنہیں موبائل فون تک آسان رسائی میسر ہے یعنی عالمی آبادی کا تقریباََ اکیانوے فیصد افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔

دوسری جانب دنیا میں ستر کے قریب ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو موبائل فون صارفین کا لوکیشن ڈیٹا ریکارڈ کرکے خفیہ طور پر اس کی خریدوفروخت کرتی ہیں۔

نیئر (Near) ایسی ہی ایک کمپنی ہے جو دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے پاس چوالیس ممالک کے ایک ارب ساٹھ کروڑ موبائل فون صارفین کا لوکیشن ڈیٹا موجود ہے۔

اسی طرح انڈیا کی ‘موبائل والا’ نامی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ایک ارب نوے کروڑ موبائل فونز کا لوکیشن ڈیٹا موجود ہے۔

ایکس موڈ نامی کمپنی کا کہنا ہے وہ ہر ماہ پچیس فیصد امریکی آبادی کی موبائل فون ایپس کے ذریعے نگرانی کرتی ہے۔

اس مارکیٹ میں ایپ بنانے والوں سے لے کر ڈیٹا جمع کرنے والی کمپنیوں تک تمام لوگ پُراسرار طور پر آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور حکومتوں کی جانب سے سخت قوانین نہ بنانے اور کڑی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کام مزید آسان ہو گیا ہے۔

ایسی کمپنیاں بعض اوقات ایپ ڈویلپرز کو پیسے دے کر بھی ایسے خفیہ کوڈز شامل کروا دیتی ہیں جو لوکیشن ٹریکنگ کیلئے سہولت کار ہو سکتے ہیں۔

اپریل 2022 میں گوگل کو پلے سٹور سے ایسی درجنوں ایپس کو ختم کرنا پڑا جن میں ڈیٹا چوری کرنے والا سافٹ وئیر شامل تھا لیکن تب تک یہ ایپس لاکھوں موبائل فونز پر انسٹال ہو چکیں تھیں اور ڈیٹا چرایا جا چکا تھا۔

جہاں کچھ کمپنیاں نئے کاروبار شروع کرنے یا پہلے سے موجود کاروبار کی ترقی کیلئے ڈیٹا جمع کرنے والی کمپنیوں سے لوکیشن ڈیٹا خریدتی ہیں اور اپنے نزدیکی علاقوں میں رہنے والے ممکنہ صارفین کو اپنا تشہیری مواد بھیجتی ہیں۔

وہیں کئی جرائم پیشہ تنظیمیں اور خفیہ ایجنسیاں بھی انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور اپنے ناپسندیدہ افراد کا لوکیشن ڈیٹا خرید کر مذکورہ افراد کی جاسوسی کرتی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

2021 میں امریکی سینیٹر رون ویڈن نے ایک میمو جاری کیا تھا کہ امریکی فوج کی ڈیفنس انٹیلی ایجنسی (ڈی آئی اے) اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کو اڑھائی سال تک اُن لاکھوں موبائل فونز کے لوکیشن ڈیٹا تک رسائی دی گئی جن میں نمازوں کے اوقات بتانے والی ایپس انسٹال تھیں۔ یہ ڈیٹا امریکی ایجنسیوں کو فروخت کر رہی تھی ایکس موڈ نامی کمپنی۔

ظاہر ہے اس کا مقصد امریکا میں مسلمانوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا تھا۔

2020 میں امریکا کی وزارت داخلہ نے کچھ کمپنیوں سے کروڑوں موبائل فونز کا لوکیشن ڈیٹا اس لیے خریدا تاکہ میکسیکو سے غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے تارکین وطن کی نگرانی کر کے انہیں گرفتار کیا جا سکے۔

یورپ میں موبائل فون صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ کے حوالے سے سخت قوانین نافذ ہیں تاہم امریکا میں وفاقی سطح پر ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو سمارٹ ایپس کو عوام کے لوکیشن ڈیٹا یا دیگر معلومات کسی تھرڈ پارٹی کو فروخت کرنے سے روک سکے۔

یہ ٹیکنالوجی کمپنیوں اور ایپ بنانے والوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے طور پر صارف کے تحفظ کیلئے رہنما اصول مرتب کر سکتے ہیں۔

پاکستان جیسے کم پڑھے لکھے اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے پسماندہ معاشروں کے موبائل فون صارفین ڈیٹا ریکارڈ کرنے والی ایپس کا آسان ہدف ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایپ انسٹال کرتے ہوئے اس کی پرائیویسی پالیسی پڑھنے کی زحمت کیے بغیر ہی ہر چیز تک رسائی دے دیتے ہیں۔

گو کہ بہت سی ایپس اور کمپنیاں یہ دعوے کرتی ہیں کہ وہ ڈیٹا پرائیویسی کے حوالے سے کس قدر محتاط ہیں اور کبھی بھی یوزر کی معلومات فروخت نہیں کریں گی لیکن کئی تحقیقات میں یہ دعویٰ انتہائی گمراہ کن ثابت ہوا ہے کیونکہ ہے تو یہ اربوں ڈالر کا کھیل۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here