چینی ارب پتی پراسرار طور پر غائب کیوں ہو رہے ہیں؟

510
Why are China’s billionaires going under the radar

اگر چین کے چند ارب پتی افراد، جیسا کہ علی بابا گروپ کے جیک ما اور ٹومارو گروپ (Tomorrow Group) کے ژیاؤ جیان ہُوا (Xiao Jianhua) کے درمیان کوئی قدرِ مشترک ہے تو وہ ان کی بے پناہ دولت نہیں بلکہ چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ ان کے اختلافات ہیں۔

گزشتہ سال چینی حکومت کی جانب سے بڑی ٹیک کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور علی بابا گروپ کے سربراہ جیک ما کے منظرِعام سے غائب رہنے کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بنیں۔

اکتوبر 2020ء میں جیک ما اُس وقت اچانک منظرعام سے غائب ہو گئے تھے جب انہوں نے چین کے فنانشل ریگولیٹرز کے بارے میں کچھ منفی تبصرے کیے تھے جس کے بعد اینٹ گروپ (Ant Group) کا آئی پی او بھی اچانک منسوخ کرنا پڑا تھا اور علی بابا گروپ کے خلاف تحقیقات شروع ہو گئیں تھیں۔

تقریباً تین ماہ بعد منظرعام پر آنے والے جیک ما کے معاملے کو میڈیا نے اُن چینی کاروباری شخصیات کے ساتھ جوڑا جنہوں نے حکومتی احکامات کو پس پشت ڈالنے کی جرات کی۔

جیک ما اور ان کا علی بابا گروپ ای کامرس کا بڑا نام اور چین کی معاشی ترقی کا عکاس ہے۔ 1999ء میں اس گروپ کو شروع کرنے والے جیک ما اَب ایک ایسی بزنس ایمپائر کے مالک ہیں جو ای کامرس، ٹیکنالوجی، انٹرٹینمنٹ اور میڈیا تک پھیلی ہے۔ وہ چین سے باہر بھی کئی کمپنیوں کے شئیر ہولڈر ہیں۔

2014ء میں علی بابا گروپ نیویارک سٹاک ایکچینج کا حصہ بنا اور ریکارڈ 25 ارب ڈالر کا سرمایہ اکٹھا کیا۔

اگرچہ دنیا میں جیک ما کی شہرت ایک کامیاب بزنس مین کی ہے مگر چین میں انہیں ایک مخیر شخصیت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے نام سے ایک فلاحی ادارہ قائم کر رکھا ہے جس کے ذریعے وہ تعلیم کے فروغ، ماحولیات کے تحفظ اور دیگر خیراتی کاموں کے لیے فنڈز دیتے ہیں۔

2018ء میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ جیک ما چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے تاہم انہوں نے اُسی سال اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔

لیکن جیک ما کی تمام کامیابیاں بھی انہیں چینی فنانشل ریگولیٹرز کی ناراضی سے اس وقت نہ بچا سکیں جب اُن پر انوویشن کی حوصلہ شکنی کا الزام لگا۔

دراصل شنگھائی میں ایک کانفرنس کے دوران جیک ما کا چین کے مالیاتی نظام سے متعلق بے باک تبصرہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور اسے فنانشل ریگولیٹرز پر حملے کے طور پر دیکھا گیا۔

جیک ما نے چین کے فنانشل نظام کو بوسیدہ اور خطرات سے بھرپور قرار دیتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس تقریر کے دس روز بعد اینٹ گروپ کا آئی پی او منسوخ ہو گیا۔ ریگولیٹرز نے علی بابا گروپ کے خلاف تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے جیک ما اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو تفتیش کے لیے طلب کر لیا۔

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان کو چھوڑیں، چین امریکا میں بھی اربوں ڈالر کے اثاثوں کا مالک

جاپان میں لوگ غیرمعمولی طور پر زیادہ کام کیوں کر رہے ہیں؟

اس کے بعد جیک ما کچھ عرصہ کیلئے غائب ہو گئے اور ٹی وی رئیلٹی شو  ‘افریقین بزنس ہیروز’ میں بھی شریک نہ ہو سکے مگر وہ واحد کاروباری شخصیت نہیں جن کے حکومت کے ساتھ مسائل پیدا ہوئے ہوں۔

الیکٹرانکس کے شعبے سے منسلک ارب پتی ہوانگ گوانگ یو (Huang Guanngyu) کو 2010ء میں کرپشن الزامات پر 14 سالوں کیلئے جیل بھیج دیا گیا تھا تاہم مقررہ مدت سے قبل ہی 2020ء میں انہیں رہا کر دیا گیا۔

2012ء میں شی جن پنگ کے صدر بننے کے بعد چین میں انسداد بدعنوانی کی زبردست مہم شروع ہوئی اور بہت سے طاقتور بیوروکریٹس اور نچلے درجے کے کئی اہلکار اس مہم کی زد میں آئے۔

ان میں سے ایک ژو مِنگ (Xu Ming) بھی تھے جو کبھی ملک کے آٹھویں امیر ترین شخص تھے۔ انہیں فراڈ کے الزام میں 2012ء میں گرفتار کیا گیا اور تین سال بعد جیل میں ان کی موت ہو گئی۔

2015ء میں چینی حکومت نے فنانشل سیکٹر میں بدعنوان عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جس کے نتیجے میں کئی اداروں کے اعلیٰ افسران کی گرفتاریاں عمل میں آئیں جن میں چین کی سب سے بڑی بروکریج فرم  سِیٹک سکیورٹیز(CITIC) کے دو اعلیٰ افسر بھی شامل تھے۔

پراسرار طور پر غائب ہو کر دوبارہ منظرعام پر آنے والے ارب پتی بزنس مینوں میں فوسن انٹرنیشنل کے سربراہ گو گوانگ چانگ (Guo Guangchang) اور فیشن برانڈ Metersbonwe کے ارب پتی بانی چاؤ چینگ جیان بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں اشخاص چند ماہ کے فرق سے 2015ء میں دوبار منظرعام پر آئے۔

ایسے ہی ایک چینی ارب پتی بزنس مین ژیاؤ جیان ہُوا (Xiao Jianhua) کو آخری بار 2017ء میں ہانگ کانگ کے ایک ہوٹل میں دیکھا گیا تھا اور تب سے آج تک ان کی کوئی خبر نہیں۔

حال ہی میں ہوایوان گروپ (Huayuan Group) کے سابق پراپرٹی ایگزیکٹو رین زیکیانگ اس وقت لاپتہ ہو گئے جب انہوں نے کورونا وبا سے نمٹنے کے حوالے سے صدر شی جن پنگ کے اقدامات پر تنقید کی۔ بعد ازاں انہیں کرپشن کے الزام کے تحت 18 سال جیل کی سزا سنائی گئی۔

چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا (Xinhua) کے مطابق 2012ء میں شروع ہونے والی انسداد کرپشن مہم کے تحت آٹھ سالوں میں اب تک تین لاکھ 26 ہزار افراد کو سزائیں دی جا چکی ہیں۔ ایسے افراد کیلئے ‘ٹائیگرز اینڈ فلائیز’ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

کاروباری شخصیات کی ان پراسرار گمشدگیوں کا اثر چین میں شئیرز مارکیٹ پر بھی دیکھا گیا ہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب فوسن انٹرنیشنل کے سربراہ لاپتہ ہوئے تو ہانگ کانگ اور شنگھائی میں کمپنی کے شئیرز کی ویلیو کئی گنا گر گئی۔

اسی طرح ٹومارو گروپ (Tomorrow) کے ارب پتی سربراہ  کی گرفتاری کے دو سال بعد جب چینی  ریگولیٹرز نے ان کے گروپ سے وابستہ 9 کمپینوں کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا تو اُن کمپنیوں کے شئیرز کی قدر بھی گر گئی۔

تحقیقات کی خبریں آنے پر جیک ما کی کمپنی علی بابا کے شئیرز بھی گر گئے جس کے بعد اینٹ گروپ (Ant Group) میں تنظیمِ نو کا حکم دیا گیا۔

اگرچہ جیک ما ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنی کمپنیوں پر کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ 2021ء کے آغاز میں ان کی 50 سیکنڈ کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی تھی، اس کے باوجود سرمایہ کاروں کے تحفظات دور نہیں ہو سکے۔

معاشی تجزیہ کار مانتے ہیں کہ چینی حکومت کے ساتھ جیک ما کے کشیدہ تعلقات کا علی بابا گروپ کے مستقبل پر گہرا اثر ہو گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here