قابل تجدید توانائی کی دوڑ میں کون آگے؟

497
who is leading in renewable energy race?

دنیا بھر میں حکومتیں بجلی بنانے کیلئے سولر پارک، ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس اور وِنڈ فارمز قائم کر رہی ہیں۔ ایسا گلوبل وارمنگ کی روک تھام اور ماحول دوست توانائی کے حصول کیلئے کیا جا رہا ہے۔

2018ء میں دنیا بھر میں ایک تہائی بجلی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی گئی۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔

پہلی یہ کہ قابل تجدید ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی سستی پڑتی ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا اب تیزی سے گرین پالیسیاں اپنا رہی ہے۔ یعنی گلوبل وارمنگ کو باقاعدہ ایک چیلنج سمجھ کر ماحول دوست اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سولر، وِنڈ، جیوتھرمل، بائیوماس اور ہائیڈرو پاور ری نیو ایبل انرجی کے عام ذرائع ہیں۔

بہت سے ملکوں میں سورج کی روشنی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ ان میں سے ایک سنگاپور بھی ہے لیکن سنگاپور بڑے پیمانے پر سولر انرجی سے مستفید نہیں ہو سکتا۔

اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک شہر جتنے چھوٹے اس ملک کے آسمان پر کب بادل آ جائیں، اس کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔

تمام ممالک قابل تجدید توانائی سے فائدہ اٹھانے کی ایک جیسی صلاحیت کے حامل نہیں۔ بہت سے ملکوں میں گرین انرجی کے بعض ذرائع کیلئے موافق ماحول موجود نہیں۔

اس کے باوجود دنیا میں renewable energy  یعنی قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔  چین، امریکا، برازیل، بھارت اور جرمنی اس ضمن میں سب سے آگے ہیں۔ ان کا بڑا رقبہ بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔

قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی فہرست سے اگر ہائیڈرو پاور کو نکال دیں تو جرمنی اس فہرست میں تیسرے اور جاپان پانچویں نمبر پر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

متبادل توانائی پر تحقیق کیلئے سولر ڈیٹا سٹیشنز کا کنٹرول یونیورسٹیوں کے سپرد

انڈس موٹر سب سے بڑا سولر فوٹو وولیک پلانٹ نصب کرنے والی پہلی کمپنی بن گئی

چینی کمپنی کا پنجاب میں سولر انرجی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار

لیکن دنیا کے سب سے بڑے انرجی کنزیومر بھی یہی چھ ممالک ہیں۔ اگرچہ یہ ممالک قابل تجدید ذرائع سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بجلی بنا رہے ہیں مگر پھر بھی ان کی بجلی کی مجموعی پیداوار میں گرین انرجی کا حصہ بہت کم ہے۔

اگر قابل تجدید توانائی کی پیداوار کو آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آئس لینڈ پہلے، ڈنمارک دوسرے، جرمنی اور سویڈن تیسرے نمبر پر ہیں جبکہ فن لینڈ بھی ٹاپ فائیو میں شامل ہے۔

قابل تجدید ذرائع سے بجلی کے حصول میں کون سا ملک سب سے آگے ہے؟ اس کیلئے دیکھنا ہو گا کہ اس ملک کی بجلی کی مجموعی پیداوار میں گرین انرجی کا حصہ کتنا ہے؟

شمالی یورپ اور لاطینی امریکی ممالک اس سلسلے میں آگے ہیں۔ ناروے، نیوزی لینڈ، برازیل اور کولمبیا 75 فیصد سے زائد بجلی قابل تجدید ذرائع سے پیدا کرتے ہیں۔ وینزویلا، کینیڈا، سویڈن اور پرتگال بھی کافی مقدار میں گرین انرجی پیدا کر رہے ہیں۔

دوسری طرف سعودی عرب، کویت، امارات اور الجیریا جیسے تیل پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں گرین انرجی نا ہونے کے برابر ہے۔

ہر ملک اپنے منفرد جغرافیے، ماحول اور پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر توانائی کے ذرائع کو استعمال میں لاتا ہے۔ مثلاََ ناروے میں 1660 ہائیڈروپاور پلانٹس اور ایک ہزار آبی ذخائر موجود ہیں۔ طویل ساحلی پٹی، اونچی وادیوں اور بلندی سے بہتے پانیوں کی وجہ سے ناروے کیلئے ہائیڈرو پاور پر زیادہ انحصار کرنا قطعاََ مشکل نہیں۔

ناروے کا ہمسائیہ سویڈن 63 فیصد جنگلات میں گھرا ہے۔ وہاں بائیو انرجی کو استعمال میں لایا گیا ہے۔ سویڈن 3 ہزار 600 وِنڈ ٹربائنز کے ذریعے 11 فیصد سستی اور ماحول دوست بجلی بناتا ہے۔

برازیل ہائیڈرو پاور سمیت 42 فیصد گرین انرجی پیدا کرتا ہے۔ کولمبیا اور وینزویلا بھی پن بجلی کیلئے مشہور ہیں۔ وینزویلا اپنی ضرورت کی 60 فیصد بجلی گوری ڈیم (Guri Dam) سے حاصل کرتا ہے تاہم 2010ء اور 2016ء میں خشک سالی کے باعث ڈیم میں پانی کا ذخیرہ بے حد کم ہونے پر حکومت کو ایمرجنسی لگانا پڑی تھی۔

قابل تجدید توانائی کا بڑھتا ہوا رجحان ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کی عالمی کوششوں کا حصہ ہے۔ کیوٹو پروٹوکول سے پیرس ایگریمنٹ تک زیادہ تر ممالک گرین ہائوس گیسوں کا اخراج روکنے کے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کر چکے ہیں۔ 2015ء میں پیرس ایگریمنٹ پر 195 ملکوں نے دستخط کیے تھے۔

اقوام متحدہ بھی صاف اور سستی توانائی کے فروغ کیلئے کوشاں ہے اور اس نے 2030ء تک عالمی سطح پر قابل تجدید توانائی کا حصہ خاطر خواہ حد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔

تقریباًَ 60 ممالک 2050ء تک کاربن کا اخراج صفر تک لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یورپی یونین دنیا کی پہلی کلائیمیٹ نیوٹرل اکانومی بننے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مگر قابل تجدید توانائی کے کئی ذرائع کو غیرمتوقع قدرتی چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔ مثلاََ خشک سالی کے نتیجے میں کوئی ڈیم مکمل سوکھ جائے تو بجلی کا نظام بیٹھ سکتا ہے۔ اسی طرح غیرمتوقع موسمی حالات کی بدولت سولر اور ونڈ پاور کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔

مگر ٹیکنالوجی نے ان مسائل کا حل بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔ ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا نے دنیا کا سب سے بڑا لیتھیم آئن بیٹری سسٹم آسٹریلیا میں لگایا ہے جو ونڈ ٹربائنز سے پیدا ہونے والی 129 میگاواٹ بجلی اپنے اندر محفوظ کر سکتا ہے جس سے 30 ہزار گھر بیک وقت مستفید ہو سکتے ہیں۔

تاہم قابل تجدید ذرائع سے دنیا کی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے اس سے کہیں زیادہ سٹوریج کی ضرورت ہو گی۔ تھری ڈی پرنٹنگ کو سولر پینلز اور ونڈ ٹربائنز بنانے پر آنے والی لاگت میں کمی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

دس سال پہلے امریکا میں سولر پینل سسٹم لگانے کی لاگت ساڑھے آٹھ ڈالر فی واٹ تھی جو اب  65 فیصد کم ہو کر تقریباََ تین ڈالر فی واٹ ہو گئی ہے۔

اس کے علاوہ ہارویسٹنگ کائی نیٹک انرجی کو بھی متبادل توانائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی انسانی قدموں سے پیدا ہونے والی توانائی کو بجلی میں تبدیل کر دے گی۔

اگرچہ دنیا تیزی سے قابل تجدید توانائی کو اپنا رہی ہے مگر بڑھتی آبادی اور معاشی ترقی کا مطلب ہے کہ بجلی کی ضرورت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے آج کیساتھ ساتھ مستقبل کی ضرورت بھی پوری کرنا پڑے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here