چینی کمپنیاں گوادر کے پیٹروکیمیکل سیکٹر میں 15 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ

1453

اسلام آباد: چینی کی سرمایہ کار کمپنیاں گوادر کے پیٹروکیمیکل سیکٹر میں 15 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہیں۔

اس حوالے سے سرمایہ کاری بورڈ (بی او آئی) کی سیکریٹری فرینہ مظہر نے بتایا کہ چین کی پاکستان میں مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بات چیت جاری ہے، چینی کمپنیوں کی جانب سے توانائی، زراعت، سیاحت اور دیگر شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری متوقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ملک میں سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (ایس ایم ایز) کلچر کے فروغ کیلئے کوشاں ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری راغب کی جا سکے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں، اسی حوالے سے نئی ایس ایم ای پالیسی متعارف کرائی جا رہی ہے اور کاروباری آسانی کیلئے ریگولیٹری اصلاحات بھی جلد متعارف کرائی جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیے:

کوریا اور چین کے سرمایہ کاروں کا پاکستان سٹیل ملز میں سرمایہ کاری میں اظہارِ دلچسپی

سی پیک: پہلے مرحلے کتنی سرمایہ کاری آئی اور کتنے ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہوئے؟

سی پیک کے فلیگ شپ انرجی پروجیکٹ کو مسلسل تیسرا ماحولیاتی ایکسیلینس ایوارڈ مل گیا

واضح رہے کہ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان سے 9 چینی کمپنیوں کے سی ای اوز نے ملاقات کی تھی، ان میں ایزی پری فیبری کیٹڈ ہومز لمیٹڈ، لاہی ٹریڈنگ انٹرنیشنل، یایشینگ انڈسٹریل پراڈکٹس کمپنی، لیڈزون لمیٹڈ، چیانگ شنگ پاکستان سرامکس، سنو وائیٹ لاویشن لمیٹڈ، ژینگبانگ ایگریکلچر، ایگزرٹ ٹیک اور چیلنج فیشن پرائیویٹ لمیٹڈ کے سربراہان شامل تھے۔

وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی تھی کہ چینی سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں گی کیونکہ حکومت کاروباری آسانیاں پیدا کرنے کی پالیسی پر تندہی سے عمل پیرا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ چینی سرمایہ کاروں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے وہ ہر مہینے خود جائزہ اجلاس کی صدارت کریں گے، پاکستان چین سے صنعتی شعبے کی ترقی کے حوالے سے بہت سیکھ سکتا ہے۔

بعد ازاں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک امور خالد منصور نے 8 چینی کمپنیوں کے سی ای اوز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ  چینی سرمایہ کاروں کے امن و امان کے حوالے سے تحفظات دور کر دیے گئے ہیں اور انہیں امن و امان کی مجموعی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ میں حکومت کی جانب سے اضافی سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

خالد منصور نے بتایا کہ چینی حکام نے 23 یا 24 ستمبر کو مشترکہ تعاون کمیٹی (جے سی سی) کے دسویں اجلاس پر آمادگی ظاہر کی ہے، اس لیے ہم میگا پروجیکٹس کے حوالے سے کافی پرامید ہیں، جے سی سی کے تحت مختلف شعبوں کے 9 جوائنٹ ورکنگ گروپ موجود ہیں، جن میں زراعت، توانائی، انفراسٹرکچر، سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر شعبے شامل ہیں، ان پر اجلاس کے دوران تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ سی پیک کے پہلے مرحلے کے دوران پاکستان میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئی جس میں سے 13 ارب ڈالر کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں جبکہ 12 ارب ڈالر کے منصوبے آئندہ ایک سال میں مکمل ہو جائیں گے۔

یاد رہے کہ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے فلیگ شپ پروجیکٹ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ کے تحت پاکستان کے مختلف شعبوں میں 60 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کا اعلان کر رکھا ہے۔

علاوہ ازیں پاکستان اور چین کے مابین سی پیک کے حوالے سے جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی (جی سی سی) کا اجلاس 23 یا 24 ستمبر کو متوقع ہے، یہ موجودہ حکومت کے دور میں جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی پہلا اجلاس ہو گا۔

اس حوالے سے سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق چین میں پاکستان کے سفیر معین الحق اور پاکستان میں چین کے سفیر نونگ رونگ مشترکہ طور پر 10ویں جے سی سی اجلاس کی صدارت کریں گے۔

اس سے قبل جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کا اجلاس جولائی 2021ء میں ہونا طے پایا تھا تاہم داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی ورکرز کی بس میں بم دھماکے میں ہلاکت کے باعث اجلاس کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں بالخصوص وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات اسد عمر کی جانب سے سرمایہ کاروں کی سہولت کیلئے کیے جانے والے اقدامات پر چین کی حکومت نے بھی اطمیان کا اظہار کیا ہے، اسی وجہ سے جے سی سی کے حالیہ اجلاس میں سی پیک کے زیرالتواء منصوبوں کی منظوری متوقع ہے۔

اس سے قبل 2014ء میں دونوں ملکوں کی قیادت نے 27 منصوبوں کی سی پیک کے تحت تکمیل پر اتفاق کیا تھا جن میں سے 17 منصوبوں کو فاسٹ ٹریک بنیادوں پر جبکہ 10 منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر سی پیک کے پہلے مرحلے میں پایہ تکمیل کو پہنچایا جانا تھا۔

دونوں ملکوں نے فاسٹ ٹریک پروجیکٹس ایک سال کی مدت میں جبکہ ترجیحی منصوبے تین سال کی مدت میں مکمل کرنا تھے، تاہم ابھی تک فاسک ٹریک کے 17 منصوبوں میں سے صرف چار مکمل ہو سکے ہیں جبکہ باقی منصوبوں پر کام جاری ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here