سٹیٹ بینک کا نئی زری پالیسی کا اعلان، شرح سود میں اضافہ کر دیا

مستقبل میں مہنگائی بڑھ سکتی ہے جس کے منظرنامے کا انحصار زیادہ تر ملکی طلب اور سرکاری قیمتوں، بالخصوص ایندھن اور بجلی کے ساتھ اجناس کی عالمی قیمتوں پر ہو گا، سٹیٹ بینک آف پاکستان

2167

کراچی: سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے نئی زری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود 25 بیسز پوائنٹس اضافے کے بعد 7.25 فیصد مقرر کر دی۔

سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس سوموار کو منعقد ہوا جس میں آئندہ دو ماہ کیلئے شرح سود مقرر کرنے کے علاوہ دیگر اہم فیصلے کیے گئے۔

مرکزی بینک سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق جولائی میں پچھلے اجلاس کے بعد زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ معاشی بحالی کی رفتار توقع سے زیادہ بڑھ گئی ہے، اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں کے ہمراہ ملکی طلب کی بھرپور بحالی درآمدات میں تیزی اور جاری کھاتے کے خسارے میں اضافے کی طرف لے جا رہی ہے۔

اگرچہ جون سے سال بہ سال مہنگائی کم ہوئی ہے تاہم بلند درآمدہ مہنگائی کے ساتھ بڑھتا ہوا طلبی دباﺅ مالی سال میں آگے چل کر مہنگائی کے اعدادوشمار میں ظاہر ہونا شروع ہو سکتا ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اب جبکہ اس بات کے آثار بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان میں کووڈ کی تازہ ترین لہر قابو میں ہے، ویکسی نیشن میں مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے اور حکومت نے وبا کو مجموعی طور پر بخوبی قابو میں رکھا ہے تو معاشی بحالی وبا سے متعلق غیریقینی کیفیت کا اتنا زیادہ شکار معلوم نہیں ہوتی۔

نتیجتاََ بحالی کے اس زیادہ پختہ مرحلے پر نمو کی طوالت کو تحفظ دینے، مہنگائی کی توقعات کو قابو میں رکھنے اور جاری کھاتے کے خسارے میں اضافے کو آہستہ کرنے کے لیے مناسب پالیسیوں کو یقینی بنانے پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔

اعلامیہ کے مطابق معاشی منظر نامے میں اس تبدیلی کے مطابق زری پالیسی کمیٹی کا یہ نقطہ نظر تھا کہ زری پالیسی کی ترجیح بھی یہ ہونی چاہیے کہ کووڈ کے دھچکے کے بعد بحالی کو تحریک دینے کے محور سے بتدریج ہٹا جائے اور اسے پائیدار بنایا جائے، جیسا کہ پچھلے زری پالیسی بیانات میں اشارہ دیا گیا تھا۔

زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ توازن قائم کرنے کا یہ عمل انجام دینے کا بہترین طریقہ گزشتہ 18 ماہ کے دوران دی گئی خاصی زری تحریک کو بتدریج گھٹانا ہو گا، پچھلے چند ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے جاری کھاتے کے خسارے میں ردوبدل کا بوجھ بنیادی طور پر شرح مبادلہ پر پڑا ہے اور یہ مناسب ہو گا کہ ردوبدل کے دیگر طریقے بشمول شرح سود بھی اپنا موزوں کردار ادا کریں۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ زری پالیسی کا موقف ابھی تک نمو کی معاونت کے لیے موزوں ہے اور حقیقی شرح سود مستقبل بین بنیادوں پر منفی رہی ہے۔ آئندہ کیلئے کمیٹی کو توقع ہے کہ غیر متوقع واقعات کی عدم موجودگی میں قلیل مدت میں زری پالیسی گنجائشی رہے گی اور ممکنہ طور پر مالیاتی اعانت بتدریج سکڑے گی تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ معتدل مثبت حقیقی شرح سود کو حاصل کیا جا سکے۔

اس مالیاتی اعانت میں مزید ممکنہ کمی کی رفتار کو دیگر عوامل کے علاوہ طلب میں نمو کی مسلسل مضبوطی اور مالیاتی پالیسی کے موقف کے بارے میں نئی معلومات سے تقویت ملے گی۔

ایم پی سی نے فیصلے تک پہنچنے میں حقیقی، بیرونی اور مالیاتی شعبوں کے اہم رجحانات اور امکانات، اور ان کے نتیجے میں زری حالات اور مہنگائی کے امکانات کو مدنظر رکھا۔

اعلامیہ کے مطابق حقیقی شعبہ میں مالی سال 2021-22ء کے معاون بجٹ اور گنجائشی زری پالیسی کے ساتھ گاڑیوں، پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت، سیمنٹ کی فروخت اور بجلی کی پیداوار جیسے زیادہ بلند تعدد والے ملکی طلب کے اظہاریے مسلسل مضبوط نمو کے عکاس ہیں۔

اس نمو کی عکاسی درآمدات اور ٹیکس وصولیوں کی مضبوطی سے ہوتی ہے، بڑی صنعتوں نے اگست میں2.2 فیصد (سال بہ سال) پر معتدل ہونے سے قبل جون میں 18.5 فیصد کی مضبوط نمو ظاہر کی جو عام موسمی رجحانات سے ہم آہنگ ہے، خدمات کے شعبے میں بھی مضبوط بحالی ہو رہی ہے۔

رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جولائی اور اگست میں اشیائے خوردونوش کی دکانوں، ریستورانوں اور شاپنگ سینٹرز میں سرگرمیاں کووڈ سے پہلے کی سطح سے تجاوز کر گئیں۔ توقع ہے کہ زراعت میں کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی کی تلافی چاول، مکئی اور گنے کے زیر کاشت رقبے میں اضافے سے ہو جائے گی۔

ان رجحانات کی بنیاد پر امید ہے کہ افغانستان میں ابھرتی ہوئی صورتِ حال کے اثرات کے لحاظ سے موجود انتہائی غیر یقینی کیفیت سے قطع نظر مالی سال 22 میں نمو 4 تا 5 فیصد پیش گوئی کی بالائی حد میں رہے گی۔

بیرونی شعبہ میں جاری کھاتے کا خسارہ جولائی میں بڑھ کر 0.8 ارب ڈالر اور اگست میں 1.5 ارب ڈالر ہو گیا جس سے شدید ملکی طلب اور اجناس کی بلند عالمی قیمتوں، دونوں کی عکاسی ہوتی ہے۔

ترسیلاتِ زر اگرچہ مستحکم رہیں اور جولائی تا اگست کے دوران سال بہ سال 10.4 فیصد بڑھیں جبکہ برآمدات نے بھی مناسب حد تک عمدہ کارکردگی (ماہانہ اوسط 2.3 ارب ڈالر) دکھائی، تاہم درآمدات نے انہیں بے اثر کر دیا۔ اس کے جواب میں روپے کی قدر ایم پی سی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے 4.1 فیصد گری۔

زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ حال ہی میں دوسری بہت سی کرنسیوں کی قدر بھی گری ہے کیونکہ فیڈرل ریزرو کی طرف سے تخفیف کی توقعات سامنے آئی ہیں۔

کمیٹی نے نوٹ کیا کہ شرحِ مبادلہ کے مارکیٹ پر مبنی لچکدار نظام نے جون 2019ء میں اپنی آمد کے بعد سے اب تک عمدہ کارکردگی دکھائی ہے اور اس عرصے میں کووڈ کا دھچکا بھی شامل ہے۔ اس نظام نے جاری کھاتے میں مثبت تبدیلی کو ممکن بنایا ہے اور بیرونی دباﺅ کے باوجود زرِ مبادلہ کے مجموعی اور خالص ذخائر میں انتہائی اہم اضافے کے لیے یہ معاون رہا ہے۔

سٹیٹ بینک کے مجموعی زرِ مبادلہ ذخائر تقریباََ تین گنا بڑھ کر ریکارڈ 20 ارب ڈالر ہو چکے ہیں جبکہ آخر جون 2019ء سے آخر اگست 2021ء تک خالص بین الاقوامی ذخائر میں تقریباََ 16 ارب ڈالر اضافہ ہو چکا ہے۔

کمیٹی کے مطابق مستقبل میں مہنگائی کے منظرنامے کا انحصار زیادہ تر ملکی طلب اور سرکاری قیمتوں، بالخصوص ایندھن اور بجلی کے ساتھ اجناس کی عالمی قیمتوں پر ہو گا۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایم پی سی مہنگائی، مالی استحکام اور نمو کے وسط مدتی امکانات کو متاثر کرنے والے حالات کی بغور نگرانی کرتی رہے گی اور اس کے مطابق کارروائی کے لیے تیار ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here