اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے زرمبادلہ ذخائر پر پابندی کی وجہ سے کابل کو ڈالروں کی کمی کا سامنا ہے، اس لیے افغانستان کے ساتھ تجارت پاکستانی روپے میں ہو گی۔
جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ افغانستان کے 9 ارب ڈالر عالمی اداروں نے روک رکھے ہیں، وہاں کی صورت حال کا روزانہ کی بنیاد جائزہ لیا جا رہا ہے، چند ہفتوں میں معلوم ہو گا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، موجودہ صورت حال میں معمولات چلانے کیلئے پاکستان افرادی قوت کی فراہمی سے معاونت کر سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں شوکت ترین نے کہا کہ ایف بی آر نوٹسز کا سلسلہ روک دیا گیا ہے، ہمارے پاس ڈیڑھ کروڑ افراد کا ڈیٹا موجود ہے جو سیلز ٹیکس دے سکتے ہیں، یہ ڈیٹا نادرا سے حاصل کیا گیا ہے اور ان کو ایک پیغام بھیجا جائے گا، اگر وہ پیغام پر اپنا جواب دیتے ہیں تو ٹھیک ہے بصورت دیگر قانونی کاروائی ہو گی۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کا افغانستان کیلئے امدادی سامان بھیجنے کا فیصلہ، چین کا 3 کروڑ ڈالر امداد کا اعلان
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں بھارتی ہیکرز نے ایف بی آر کا سسٹم ہیک کیا تھا، انڈین ہیکرز نے 2019ء میں بھی ایف بی آر کا سسٹم ہیک کیا تھا، سسٹم ہیک ہونے پر جس کو سزا ملنی چاہیے تھی اس کو مل چکی ہے، ایف بی آر کے آئی ٹی سسٹم کو اَپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔
ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ کہ ایکسچینج ریٹ اس وقت جہاں موجود ہے اس جگہ پر ہونے کا ہدف تھا، ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طور پر کم رکھنے سے نقصان ہوتا ہے، اس کا فیصلہ سٹیٹ بینک نے کرنا ہے۔
کامیاب جوان پروگرام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام جلد شروع کیا جائے گا، پہلے مرحلے کا آغاز خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے ہو گا کیونکہ پورے پاکستان میں پروگرام شروع کرنا ابھی ممکن نہیں۔
معاشی اشاریوں کے حوالے سے شوکت ترین کا کہنا تھا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ معیشت ترقی کر رہی ہے، تجارتی خسارہ 4 ارب ڈالر کا بتایا گیا ہے، اگست میں درآمدی بل میں اضافہ ہوا، ماضی میں پائیدار شرح نمو نہ ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر جی ڈی پی کی شرح نمو 4 فیصد تک رہی اور رواں سال اسے 4.8 فیصد پر لے کر جائیں گے، ہماری معیشت میں بہتری آ رہی ہے جس کی وجہ شرح نمو بڑھے گی، اکتوبر میں کمیٹی کو پہلی سہ ماہی کی کارکردگی کے بارے میں بریفنگ دوں گا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 19۔2018ء میں روپے کی قدر گرائی گئی جس کا معیشت پر اثر پڑا، اُس وقت مہنگائی کی سطح 8.4 فیصد تھی جو اب 10.5 فیصد پر ہے، کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی اس سب سے بڑا مسئلہ ہے، پوری دنیا میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اب ہم اس وقت سے گزر رہے ہیں لیکن اس کو کنٹرول کریں گے۔
وزیر خزانہ نے کمیٹی کو بتایاکہ گزشتہ ایک سال میں گھی کی قیمتوں میں 90 فیصد اضافہ ہوا، دالوں کی قیمتوں میں 40 سے 50 فیصد کا اضافہ ہوا، یہ وہ آئٹمز ہیں جو ہم باہر سے منگواتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کہ پٹرولیم مصنوعات پر پوری کوشش کی کہ لیوی کے ذریعے ریلیف دیا جائے، باہر سے منگوا کر جو آئٹمز فروخت کر رہے ہیں ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جیکب آباد میں پیاز اگانے والے کو چار روپے ملتے ہیں اور یہاں خریدنے والا 30 روپے ادا کرتا ہے، مڈل مین کا کردار ختم کریں گے جو مہنگائی کا سبب ہے۔