اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کو بتایا گیا ہے کہ وزارت کے موثر اقدامات اور ایل این جی کی سپاٹ خریداری کے ذریعے 41 ارب روپے کی بچت کی گئی ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس چیئرمین عمران خٹک کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا، کمیٹی نے پٹرولیم (ترمیمی) بل 2021 پر غوروخوض کیا اور وزارت سے بعض مجوزہ ترامیم کے بارے میں وضاحت طلب کی جس کے بعد بل کو آئندہ اجلاس کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
وزارت کی جانب سے چار ایل این جی کارگوز کی جولائی کے آخری ہفتے میں درآمد سے متعلق اجلاس کو بتایا گیا کہ مناسب اقدامات اور سپاٹ ایل این جی خریداری کے باعث 41 ارب روپے کی بچت کی گئی ہے۔
وزارت کے حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایل این جی مارکیٹ کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں گیس ذخیرہ کرنے کی سہولت موجود نہیں اور موجودہ پیپرا رولز سپاٹ کارگو خریداری کے لئے موزوں نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایل این جی کی فیوچر ٹریڈنگ کے لیے بڑے پیمانے پر مالی گارنٹی کی ضرورت ہوتی ہے تاہم پاکستان سٹیٹ آئل اور پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ گردشی قرض کے بوجھ تکے دبے ہونے کی وجہ سے مالی گارنٹی فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
کمیٹی نے وزارت سے کہا کہ وہ اس مسئلے پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو اصل صورت حال سے آگاہ کرے کیونکہ میڈیا میں ایل این جی کی مہنگی خریداری کے حوالے سے خبریں شائع کی گئیں۔
قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے سوئی سدرن گیس کمپنی سے ملازمین کو نکالے جانے پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے ہدایت کی کہ اس حوالے سے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کی جائے۔