بحران کے زمانے میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما خسارہ زدہ سماء ٹی وی کو کیوں خریدنا چاہتے ہیں؟

میڈیا کی معاشی حالت اور سنسر شپ کی صورت حال کے پیش نظر موجودہ دور میں نیوز چینل چلانا کسی صورت منافع بخش کاروبار نہیں، مگر علیم خان جیسی کاروباری اور سیاسی شخصیت کے لیےمیڈیا کی رائے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت منافع کمانے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے

3688

آپ پاکستان میں ٹی وی چینل کیوں خریدیں گے؟ زیادہ واضح الفاظ میں بات کی جائے تو آپ پاکستان میں نیوز چینل کیوں خریدیں گے؟ اس سے بھی زیادہ واضح  الفاظ میں بات کی جائے تو وہ کیا چیز ہے جو ایک رئیل اسٹیٹ ٹائیکون اور حکمران جماعت کے سینئیر وزیر کو اپنی محنت کی کمائی کے ساڑھے 3 ارب روپے اس چینل پر لگانے پر مجبور کر رہی ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل خسارے کا شکار ہے۔

نیوز میڈیا کی دنیا سے آنے والی تازہ ترین خبروں سے اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کے سینئیر وزیر علیم خان سماء ٹی وی  کی خریداری کے عمل میں مصروف ہیں۔ اگرچہ سماء ٹی وی کی انتظامیہ اور علیم خان دونوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا ہے مگر چینل کے ملازمین نے انکشاف کیا ہے کہ چینل کے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی، ملازمین کی چھانٹی، اور ہیومن ریسورس (ایچ آر) پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ نئی انتظامیہ کیلئے راہ ہموار کی جا سکے۔

سوال یہ ہے کہ علیم خان یا کوئی اور شخص ٹی وی چینل کیوں خریدنا چاہتا ہے؟ موجودہ دور میں میڈیا انڈسٹری کی حالت اور سنسرشپ کی صورت حال کے باوجود یہ خواہش ممکن ہے کہ صحافت سے محبت کا نتیجہ ہی ہو۔ اشتہارات کے ریونیو میں کمی اور ڈیجیٹل میڈیا کی مقبولیت میں اضافے جیسے عوامل کی موجودگی میں نیوز چینل خرید کر منافع کمانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر آپ سنسرشپ کی موجودگی  کی پروا کیے بغیر بڑا اقدام اُٹھاتے ہوئے کل کوئی نیوز چینل کھولتے ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ کو مالی طور پر نقصان اٹھانا پڑے اور آپ ناکام ہو جائیں۔

لیکن ان تمام عوامل کے باوجود علیم خان نیوز چینل خریدنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور ایسا کرنے والے وہ اکیلے شخص نہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نیوز چینل کے مالک بن کر آپ اثرورسوخ والی شخصیت بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ علیم خان جیسی کوئی کاروباری شخصیت ہیں جس کے سیاسی مفادات بھی ہیں تو اگر آپ کے کاروبار کے بارے میں کسی اخبار یا نیوز چینل پر کوئی خبر لگتی ہے تو آپ اپنے چینل کے صحافیوں کو متحرک کرکے اُس خبر کا دوسرا رُخ بیان کروا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کی بات نہ ماننے والا صحافی نوکری سے جائے گا۔

کسی بھی مشکل سے نمٹنے کے لیے چینل کی ملکیت بہت معاون  ثابت ہوتی ہے اور ایسا اکثر ہوتا بھی رہتا ہے، اس کیلئے کراچی کے ایک نجی ایلیٹ سکول کو لے کر بول نیوز اور ایک نجی کمپنی کے مابین جھگڑے کی مثال سامنے رکھی جا سکتی ہے جس کے بارے میں پرافٹ نے حال ہی میں لکھا تھا کہ کیسے نیوز رپورٹنگ ذاتی مفاد کیلئے کی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اگر علیم خان سماء ٹی وی کو خرید لیتے ہیں تو اس سے پاکستان میں نیوز انڈسٹری میں تھوڑا سا بھونچال ضرور آئے گا۔

فریڈم نیٹ ورک کے مطابق اس وقت سماء نیوز ملک کا چوتھا بڑا نیوز چینل ہے جو صرف جیو نیوز، اے آر وائے اور پی ٹی وی سے پیچھے ہے۔ ملک میں ٹی وی کی یومیہ آڈیئنس میں سماء کا حصہ 7 فیصد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ناظرین کی تعداد زیادہ نہ ہونے کے باوجود یہ اہمیت کا حامل  اور با اثر چینل ہے اور یہی وجہ ہے کہ علیم خان اسے خریدنا چاہتے ہیں۔

ناظرین کا وہ 7 فیصد جو سماء دیکھتے ہیں اُن کے ذریعے علیم خان ذاتی اور پارٹی کی تشہیر کر سکتے ہیں، اگرچہ یہ چینل خسارے میں جا رہا ہے مگر اسے خرید کر علیم خان یہ جانتے ہوں گے کہ میڈیا کا ایک حصہ اُن کی پشت پر ہے، اس لیے ملک کے چوتھے بڑے نیوز چینل کو میدان میں اتارنا کوئی بُرا اقدام نہیں ہو گا۔ بے شک یہ جیت نہ سکے مگر کچھ شوروغل تو ضرور مچائے گا۔

علیم خان بہرحال ایک کاروباری شخصت ہیں اور اپنی سرمایہ کاری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش ہی کریں گے، اس کیلئے وہ چینل کے خسارے میں کمی لانے کی کوشش کریں گے، ملازمین کی تعداد میں کمی اور خبروں میں سنسنی خیزی اس حوالے سے انتہائی مددگار ہیں۔ تاہم اس سب کا منفی پہلو صحافت کے معیار کی گراوٹ ہو گا۔

اس مضمون میں ہم وضاحت کریں گے کہ پاکستان میں نیوز چینل خریدنے کا فائدہ اور نقصان کیا ہے اور کیوں یہ اپنی لاگت کے باوجود ایک اچھا خیال نہیں ہے۔

سماء اور ظفر صدیقی کا تعلق

یہ کہانی دو کرداروں کے گرد گھومتی ہے، ایک علیم خان اور دوسرے ظفر صدیقی۔ علیم خان ایک رئیل اسٹیٹ ڈویلپر اور ویژن گروپ کے چئیرمین ہیں۔  وہ سیاست سے بھی وابستہ ہیں اور تین دفعہ پنجاب کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ اب وہ سماء ٹی وی کے ممکنہ خریدار ہیں۔

دوسری شخصیت ظفر صدیقی کی ہے، یہ مکمل طور پر نیوز چینلز کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور دو چینلز کی لانچنگ اور ری لانچنگ  کے علاوہ ان  کی فروخت کے عمل کی نگرانی بھی کر چکے ہیں۔

ظفر صدیقی، چیئرمین سماء میڈیا گروپ

پاکستان میں کیبل پر اس وقت 33 لائسنس یافتہ ٹی وی چینل آتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کی مالیاتی کارکردگی خراب ہے۔ اس وقت سوائے جیو کے زیادہ تر نیوز چینلز صنعت کاروں، رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز اور ایسے لوگوں کی ملکیت ہیں جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔ جیو کے دو بڑے حریف اے آر وائے نیوز اور دنیا نیوز ہیں۔ اے آر وائے نیوز سونے کی تجارت سے وابستہ گروپ کی ملکیت ہے جبکہ دنیا نیوز لاہور کے سابق مئیر اور پنجاب گروپ آف کالجز کے مالک میاں عامر کی ملکیت ہے۔ گورمے بیکرز کے مالکان جی این این نیوز اور سافٹ وئیر کمپنی ایگزیکٹ کے مالکان بول نیوز چلا رہے ہیں۔

لیکن یہ معاملہ ہمیشہ سے ہی ایسا نہیں تھا، پاکستان میں ٹیلی ویژن کی کہانی سید واجد علی کے ساتھ شروع ہوتی ہے جو پیکجز گروپ کے بانی سید بابر علی کے بڑے بھائی ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں ٹیلی ویژن لانے کے لیے جاپان کی نیپون الیکٹرک کمپنی (این ای سی) کے ساتھ ایک جوائنٹ وینچر معاہدے پر دستخط کیے۔ جلد ہی اس منصوبے کا کنٹرول ایوب خان کی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے کر اسے وزارت اطلاعات کے ماتحت کر دیا۔ یوں پی ٹی وی کا آغاز ہوا جس نے تین دہائیوں تک پاکستان میں ٹی وی کے منظر نامے پر راج کیا۔ 1990ء میں چیزیں تبدیل ہونا شروع ہو گئیں۔ نیم سرکاری ادارے شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک، جو کہ سی این این اور بی بی سی کے پروگرام نشر کیا کرتا تھا، کے ذریعے نیٹ ورک ٹیلی ویژن مارکیٹنگ ( این ٹی ایم) کے لیے راہ ہموار ہوئی جو پاکستان کا پہلا نجی ٹی وی چینل بنا۔ اس کے پروگرامز میں زیادہ تر بی بی سی، سی این این، جرمنی کے ڈی ڈبلیو اور این ٹی ایم کے ملکیتی شوز شامل تھے۔

1990ء کی دہائی میں ظفر صدیقی نے پاکستان میں ٹیلی ویژن کے حوالے سے منظر نامے میں تبدیلی کو محسوس کر لیا تھا۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے، جنہوں نے اپنے شعبے میں زبردست کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے کیرئیر کا آغاز کے پی ایم جی عمان میں بطور پارٹنر کیا۔ بعد میں انہیں پاکستان میں کے پی ایم جی کا مینجنگ ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ مگر ظفر صدیقی کو اس زمانے میں ٹی وی کا شعبہ زیادہ پر کشش نظر آیا، لہٰذا انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے: سونے کے کاروبار اور سکینڈلز سے میڈیا ایمپائر تک،ARY  گروپ کے مشکوک عروج کی کہانی

ماضی کو یاد کرتے ہوئے ظفر صدیقی کا کہنا تھا کہ ’’1990 کی دہائی کے وسط میں مجھے پاکستان میں ٹی وی پروڈکشن ہاؤس کھولنے کا موقع ملا جو غیرملکی براڈکاسٹرز کو پروگرام بنانے میں مدد فراہم کرتا تھا۔‘‘

اس موقع کو استعمال میں لاتےہوئے ظفر صدیقی نے بہت سے شوز پروڈیوس کرنا شروع کر دیے، ان میں پی ٹی وی کے لیے ایک بزنس شو، بی بی سی کے لیے کوئسچن ٹائم پاکستان، سی این بی سی ایشیا  کے لیے پاکستان بزنس ویک اور این ٹی ایم چینل کے لیے بزنس ویک شامل تھے۔

نئی صدی کے آغاز تک ظفر صدیقی نیوز میڈیا کے کاروبار سے بھرپور انداز میں جُڑ چکے تھے، یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں ٹیلی ویژن انڈسٹری میں بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی تھیں۔

این ٹی ایم تو 1999ء میں مالیاتی بحران کی وجہ سے بند ہو گیا مگر اس نے پاکستان میں نجی میڈیا کے انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔ 2000ء میں مشرف حکومت نے نجی نشریات اور ٹی وی چینلز کو ذاتی مواد بنانے اور آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت دے دی۔ جلد ہی ملک میں بے شمار نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینلز کا آغاز ہو گیا، جیو، اے آر وائے، انڈس، آج اور ہم ٹی وی، یہ سب 2001ء سے 2005ء کے درمیانی عرصے میں آن ائیر ہوئے۔ سماء 2007 میں لانچ ہوا۔

اس اہم ترین عرصے میں  ظفر صدیقی بہت زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔ 2003ء تک وہ مختلف شوز تیار کرتے رہے، بعد ازاں انہوں نے مشرق وسطیٰ کے 20 ممالک میں سی این بی سی عریبیہ متعارف کرایا، یہ چینل عربی زبان کا پہلا بین الاقوامی  نیوز چینل بنا۔ 2005ء میں ظفر صدیقی پاکستان آ گئے اور یہاں انہوں نے سی این بی سی متعارف کرایا، 2007ء میں انہوں نے سی این بی سی افریقہ اور پاکستان میں سماء ٹی وی قائم کیا۔ 2009ء میں انہوں نے سماء ایف ایم متعارف کرایا، وہ اب بھی سی این بی سی افریقہ اور سماء ٹی وی کے چئیرمین کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

نیوز میڈیا انڈسٹری میں طویل کرئیر اور تجربے کی بنیاد  پر ظفر صدیقی نے دو ٹی وی چینل لانچ کیے، ایک سی این بی سی پاکستان اور دوسرا سماء ٹی وی۔ تاہم ان میں سے سی این بی سی پہلے ہی فروخت کیا جا چکا ہے اور اب تک کئی ناموں سے سامنے آ چکا ہے جبکہ سماء فروخت کیے جانے کے عمل سے گزر رہا ہے۔

سی این بی سی کو متعارف کرانے سے قبل ظفر صدیقی نے بیان دیا تھا کہ یہ چینل ایک سال کے اندر سٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ کرایا جائے گا، اَب تک پاکستان میں صرف ایک ہی ٹی وی چینل ’ہم نیٹ ورک‘سٹاک ایکسچینج کا حصہ ہے۔ پاکستان میں سی این بی سی کے قیام کے لیے ایک پاکستانی کمپنی VNTV، جو سی این بی سی گلوبل نیٹ ورک تک رسائی رکھتی تھی، نے ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی تاہم سی این بی سی کو سٹاک ایکسچینج کا حصہ نہیں بنایا جا سکا تھا اور 2015ء میں اسے ویژن نیٹ ورک ٹیلی ویژن لمیٹڈ کو فروخت کر دیا گیا۔ اس فروخت کے بعد یہ جاگ ٹی وی کے نام سے متعارف ہوا۔ بعد میں جاگ ٹی وی کو گورمے بیکرز نے ڈیڑھ ارب روپے میں خرید کر اس کا نام ’جی این این‘ رکھ دیا۔

جاگ کو خرید کر جی این این کے نام سے متعارف کرانے والا خاندان گورمے بیکریوں کی چین کا مالک ہے۔ یہ ایک اور مثال ہے کہ ایک کاروباری خاندان نے اثرورسوخ کے حصول کے لیے ایک ٹی وی چینل میں سرمایہ کاری کی جس سے شائد منافع تو حاصل نہ ہو مگر وہ اسے اپنے تعلقات اور اثرورسوخ کو بڑھاوا دینے اور کاروباری لحاظ سے کچھ غلط ہونے کی صورت میں دفاع کے طور پر استعمال کر سکیں۔

جاگ ٹی وی ڈیڑھ ارب روپے میں فروخت ہو کر گورمے نیوز نیٹ ورک بن گیا تھا، مگر سماء ٹی وی جاگ سے قدرے بڑا ہے اور ناظرین کی تعداد بھی زیادہ ہے، اس کا سودا کم از کم ساڑھے تین ارب روپے میں طے پانے کا امکان ہے جو کہ غیر منطقی بھی نہیں۔

لیکن مسئلہ صرف یہ ہے کہ موجودہ وقت ٹی وی چینل خریدنے کے لیے قطعاََ موزوں نہیں۔ سینسرشپ عروج پر ہے اور حکومت نے اشتہاروں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔

لرزہ خیز تبدیلی

اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کہ بے شمار نجی ٹی وی چینلز کا پاکستان پر کیا اثر پڑا ہے؟ یہ دیکھنا بہتر ہے کہ گزرے برسوں میں اِن چینلز نے کتنی ترقی کی ہے۔ کسی بھی چینل کا حجم معلوم کرنے کا سب سے پہلا ذریعہ 2012ء میں گیلپ کی جانب سے کیا جانے والا ٹی اے ایم  سروے ہے۔ اس سروے کے مطابق اُس وقت سماء ٹی وی پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹی وی چینلز میں ساتویں نمبر پر تھا۔ یہ جیو نیوز اور اے آر وائی نیوز سے پیچھے مگر دنیا نیوز سے کہیں آگے تھا۔ اُس وقت سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینلز میں پی ٹی وی سب سے آگے تھا کیونکہ اس وقت تک ملک میں کیبل تک رسائی عام نہیں ہوئی تھی۔ یوں اس وقت پی ٹی وی اور کچھ دوسرے انٹرٹینمنٹ چینلز کی موجودگی میں سماء کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا۔

پی ٹی وی سب سے زیادہ دیکھا جاتا تھا کیونکہ یہ ان دو چینلز میں سے ایک تھا جو مفت میں دیکھے جا سکتے تھے اور انہیں دیکھنے کے لیے کیبل کی ضرورت نہیں تھی۔ 2010ء کے گیلپ سروے کے مطابق پاکستانی عوام کی بڑی تعداد کو کیبل تک رسائی نہیں تھی لہٰذا وہ خواہش کے باوجود بھی کیبل پر آنے والے چینلز نہیں دیکھ سکتے تھے۔ 2012ء میں پاکستان میں ٹی وی ناظرین کی کل تعداد 12 کروڑ 20 لاکھ تھی ۔ اس میں سے 44 فیصد یعنی پانچ کروڑ 30 لاکھ پی ٹی وی دیکھتے تھے۔ دوسرے نمبر پر ایک کروڑ 70 لاکھ (14 فیصد) ناظرین   سٹار پلس دیکھتے تھے جو فہرست میں دوسرے نمبر پر تھا۔ پی ٹی وی نیوز ڈیڑھ کروڑ یومیہ ناظرین کے ساتھ اس فہرست میں تیسرے نمبر پر تھا۔

یہ بھی پڑھیے: سی این این پرڈیوسر سے پاکستان کے میڈیا ٹائیکون بننے تک کا سفر، سٹی میڈیا گروپ کے مالک محسن نقوی کی کہانی

ان اعدادوشمار کے مقابلے میں سماء ٹی وی بہت چھوٹا تھا اور اسے یومیہ محض 8 لاکھ 83 ہزار افراد دیکھتے تھےیعنی پورے ملک کے ٹی وی ناظرین میں سے صرف 0.7 فیصد لوگ سماء ٹی وی کے ناظر تھے، تاہم 2012ء میں سماء کی ناظرین کی تعداد  ملک میں ٹی وی دیکھنے والوں کی مجموعی تعداد کے 7 فیصد تک جا پہنچی۔ لیکن ناظرین کی تعداد میں یہ اضافہ صرف سماء کیلئے ہی نہیں تھا، بلکہ جیو نیوز نے پی ٹی وی کو اس ضمن میں کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا اور کل ٹی وی ناظرین میں ایک تہائی جیو کے دیکھنے والے تھے۔ اے آر وائے کے ناظرین کی تعداد بھی ٹی وی کے مجموعی ناظرین کے 12 فیصد کے برابر پہنچ گئی تھی۔ تاہم پی ٹی وی نیوز کی ویورشپ 11 فیصد پر اٹکی رہی اور اس کے دیکھنے والوں میں زیادہ تر افراد کا تعلق دیہات سے تھا جہاں ابھی تک کیبل نہیں پہنچی تھی۔

اوپر بیان کردہ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف ملک میں ٹی وی تک رسائی میں اضافہ ہوا بلکہ کیبل ٹیلی ویژن تک بھی لوگوں کی رسائی بڑھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ ظفر صدیقی ایک ایسے وقت میں سماء ٹی وی کو چھوڑ رہے ہیں جب یہ چینل ناظرین کی تعداد کے حوالے سے اپنے قیام کی نسبت بہت بہتر ہو چکا ہے لیکن موجودہ دور میں میڈیا کی حالت یہ ہے کہ اگرچہ دیکھنے والوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوا ہے مگر سرکاری اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدن سکڑ گئی ہے اور چینلز کا منافع بخش ہونا انتہائی مشکل ہو گیا ہے حتیٰ کہ بعض چینلز اپنے اخراجات پورے کرنے کے حوالے سے بھی مشکلات کا شکار ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کی روزی روٹی کا انحصار میڈیا پر تھا وہ خوش نہیں ہیں، انہیں پہلے سے کہیں زیادہ نگرانی کا سامنا ہے مگر کمائی کچھ نہیں ہے۔ لیکن علیم خان جیسے خریداروں کے لیے یہ ایک مثالی موقع ہے وہ ناظرین کی بڑی تعداد والے چینل کو خرید کر پردے کے پیچھے سے اس کی ادارہ جاتی پالیسی کو اپنی مرضی سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔

کیا سماء ٹی وی کی خریداری کا فیصلہ اچھا ہے؟

اگر مالی لحاظ سے بات  کی جائے تو اس کا جواب ہے ’نہیں‘۔ اگرچہ پرافٹ سماء ٹی وی کے تازہ مالیاتی نتائج تک رسائی حاصل نہیں کر سکا مگر ہم نے چینل کے 2016ء کے اکاؤنٹس کا جائزہ لیا ہے۔ 2016ء میں سماء ٹی وی کو ایک ارب 11 کروڑ 83 لاکھ 48 ہزار روپے کا خسارہ ہوا تھا جس کے بعد اس کا مجموعی خسارہ 11 ارب 14 کروڑ 80 لاکھ 56 روپے تک جا پہنچا تھا۔ تاہم سماء کو امید تھی کہ وہ آگے چل کر اپنے آپریشنز کو بہتر کرکے اِن نقصانات پر قابو پا لے گا جس کا اظہار اس کی انتظامیہ نے 30 جون 2016ء کو ختم ہونے والے مالی سال کی فنانشل سٹیٹمنٹ میں بھی کیا ہے۔

مگر ہوا یہ کہ 2016ء کے بعد سے نیوز میڈیا کے لیے حالات ابتر ہی ہوتے گئے، خاص کر 2018ء میں ملک کا انتظام سنبھالنے والی نئی حکومت کی جانب سے اشتہارات کے اخراجات میں بڑی کمی کیے جانے کے بعد میڈیا کیلئے حالات مزید خراب ہو گئے۔ پہلے سے دگرگوں صورت حال کو کورونا وائرس کے پیدا کردہ معاشی بحران نے مزید خراب کر دیا۔ 2016ء میں ہی اس بات کے اشارے ملنا شروع ہو گئے تھے کہ سماء میڈیا گروپ مسائل کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔

نوید صدیقی سماء کے موجودہ چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں، انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن ( آئی بی اے) سے ایم بی اے کر رکھا ہے، سماء سے پہلے وہ 2005ء سے 2007ء تک جیو ٹی وی میں بطور مارکیٹنگ مینیجر کام کرتے رہے۔ بعد ازاں اے آر وائے نیوز میں پراڈکٹ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں نائب صدر تعینات ہوئے۔ 2010ء میں وہ بطور ڈائریکٹر آف سٹریٹیجک پلاننگ سماء نیوز کا حصہ بنے اور 2012ء میں ترقی کرکے چیف ایگزیکٹیو آفیسر بن گئے۔ نوید صدیقی کے علاوہ ظفر صدیقی کی صاحبزادی سارہ صدیقی بھی سماء نیوز میں بطور نائب صدر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے سٹی یونیورسٹی لندن سے بین الاقوامی صحافت میں ڈگری لے رکھی ہے۔ سماء میں کام کرنے کے علاوہ  سارا صدیقی چھوٹی عمر کے ناظرین کے لیے کٹاکٹ (cutacut) کے نام سے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم بھی چلاتی ہیں۔

2016ء میں جاگ ٹی وی کے نان کرنٹ اثاثہ جات کی مالیت 53 کروڑ 57 لاکھ 42 ہزار 699 روپے تھی جس میں 10 لاکھ 95 ہزار روپے مالیت کا لائسنس بھی شامل تھا اور اس کی مدت 15 سال تھی۔ چینل کو اشہارات سے آمدن کا تخمینہ ایک ارب 94 کروڑ 78 لاکھ 95 ہزار روپے تھا، کمپنی کی فنانشل سٹیٹمنٹ کے مطابق اس کی گئیرنگ کی شرح 1050 فیصد تھی۔  (اس سے مراد کسی بھی فرم کے آپریشنز کا قرض کے مقابلے میں اس کی اپنی ایکویٹی کے بل بوتے پر چلنے کی شرح ہے)۔

یہ بھی پڑھیے: میڈیا کے بزنس ماڈل کی وہ خامی جس سے فائدہ اٹھا کر حکومت اسے کنٹرول کر رہی ہے

2016ء میں سماء ٹی وی نے ایک ہزار 117 ملازمین بھرتی کیے اور اس کے سی ای او کی تنخواہ ایک کروڑ 16 لاکھ 52 ہزار روپے سالانہ تھی۔ تاہم اب یہ نمبرز پہلے جیسے نہیں رہے، اس کے علاوہ بڑھتی عمر اور موزوں جانشین کی عدم دستیابی کی وجہ سے ظفر صدیقی بھی اس چینل کو فروخت کرنے پر کسی قدر آمادہ ہو چکے ہیں۔

جاگ سسٹمز کے قیام کے وقت ظفر صدیقی 98 فیصد جبکہ سلیم عادل اور جاوید فاروقی ایک، ایک فیصد کے شئیرہولڈر تھے تاہم میڈیا اونرشپ مانیٹر پاکستان کے مطابق  ظفر صدیقی نے اپنے ملکیتی شئیرز بلال صدیقی کو منتقل کر دیے۔ انہوں نے کوشش کی کہ شئیرز کی ملکیت ان کے خاندان کے پاس ہی رہے کیونکہ میڈیا اُن کا جنون ہے۔ وہ ’میڈیا 3.0‘ نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں لیکن موجودہ  سیاسی اور معاشی حالات میں سماء کو چلانا اور اپنی ملکیت میں رکھنا یقیناً ناممکن ہو گیا ہے، مزید یہ ہے کہ ادارہ مسلسل خسارے میں جا رہا ہے۔

علیم خان کے لیے اس میں کیا فائدہ رکھا ہے؟

ہم یہ بات پہلے ہی کر چکے پیں کہ کیوں علیم خان یا کسی اور سیاسی اور کاروباری شخص کے لیے ٹی وی چینل کی ملکیت اہمیت رکھتی ہے۔ آج کے دور میں نیوز چینل چلانے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے پاس پہلے سے ایسا ادارہ ہو جو دہائیوں سے کام کرتا آ رہا ہو اور وہ اتنا بڑا اور طاقتور ہو کہ اپنے بل بوتے پر ہی چلنے کے قابل ہو۔ یہ اے آر وائے یا جیو جیسے ادارے ہو سکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے پاس کوئی دوسرا بہت زیادہ پیسہ بنانے والا کاروبار ہو، جس کے بل بوتے پر آپ اپنے چینل کو چلا سکیں اور اس کا استعمال پراپیگنڈا کے لیے کرسکیں۔

بلاشبہ علیم خان کے پاس اتنا پیسہ ہے۔ ویژن گروپ کا قیام 2012ء میں رئیل اسٹیٹ کے منصوبوں پر کام کرنے والی کمپنی کے طور پر عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ گروپ کئی منصوبہ جات پر کام کر چکا ہے جس میں علیم خان فاؤنڈیشن، پارک ویو آئیکون جو کہ آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے، اسلام آباد میں پارک ویو سٹی، ، لاہور کے مال روڈ پر پارک ویو کارپوریٹ سنٹر، گلبرگ لاہور میں پارک ویو سگنیچر اپارٹمنٹس، دی نیشنل سکول اور ملتان روڈ لاہور پر پارک ویو ولاز شامل ہیں۔

عبدالعلیم خان، رہنما پاکستان تحریک انصاف

علیم خان کے 2018ء کے کاغذات نامزدگی کے مطابق وہ 91 کروڑ  80 لاکھ روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ ان کے کاغذات نامزدگی میں ذاتی پراپرٹی کی ملکیت 15 کروڑ 90 لاکھ روپے ظاہر کی گئی جبکہ انہیں 12 کروڑ 90 لاکھ روپے کے شئیرز کا مالک بتایا گیا ہے۔ ان کے مقامی کاروبار کی مالیت محض 90 ہزار روپے جبکہ ان کے بیرون ملک کاروبار کی مالیت 81 لاکھ روپے بتائی گئی۔ انہی کاغذات نامزدگی کے مطابق علیم خان اندورن ملک 43 اور بیرون ملک تین کمپنیوں کے مالک ہیں۔ 2018ء میں انہوں نے تنخواہوں اور منافع کی مد میں 4 کروڑ 32 لاکھ 90 ہزار روپے وصول کیے اور ایک کروڑ روپے کا ٹیکس ادا کیا۔

اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامت کی بنا پر علیم خان کو پنجاب کابینہ سے مستعفی ہونے کے علاوہ نیب تحقیقات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 2019ء میں نیب نے انہیں پانامہ سکینڈل کی تحقیقات کی روشنی اور اندرون و بیرون ملک آمدن سے زائد اثاثے بنانے، پارک ویو ہاؤسنگ سوسائٹی اور لاہور اور اس کے مضافات میں 1500 کنال زمین کے حصول کے لیے اختیارات کے غلط استعمال کے کیس میں گرفتار کیا تھا۔

یہاں ہم ایک بار پھر اپنی بات دہرائیں گے کہ نفع و نقصان کی بنیاد پر لیے جانے والے کاروباری فیصلوں کے طور پر ٹی وی چینل کی خریداری کا فیصلہ بالکل بھی منطقی اقدام نہیں۔ اگرچہ اس مضمون میں سماء ٹی وی کے جو مالیاتی نتائج بیان کے گئے ہیں وہ 2016ء کے ہیں مگر کسی بھی ادارے کے لیے یہ تقریباً ناممکن ہے کہ وہ اتنے بڑے (11 ارب روپے سے زائد) خسارے کو منافع میں تبدیل کر دے، خاص طور پر اگر ہم پاکستان میں ٹی وی انڈسٹری کی موجودہ حالت زار کو دیکھں۔

میڈیا ہاؤسز اب پہلے جیسا منانفع کمانے کی پوزیشن میں نہیں، خاص طور پر پی ٹی آئی حکومت میں سرکاری اشتہاروں میں ہونے والی بڑی کمی کی وجہ سے۔ اگست 2018ء میں سینیٹ کو بتایا گیا تھا کہ حکومت نے  2013ء سے  2017ء تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو  15 ارب 70 کروڑ روپے کے اشتہارات دیے۔ پی ٹی آئی حکومت نے پیسے کے بل بوتے پر میڈیا کی حمایت کے تاثر سے بچنے کے لیے سرکاری اشتہارات میں کمی کر دی۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ میڈیا انڈسٹری کے حالات الیکشن سے پہلے ہی بگڑنا شروع ہو گئے تھے لہٰذا تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت کے اشتہارات کے حوالے سے اقدام پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

Aurora میگزین کے 2018ء کے ایک ایڈیشن میں شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق پاکستان کے نیوز میڈیا کو دیے جانے واالے اشتہارات میں سے 46 فیصد ٹی وی کو دیے گئے جن کی مالیت 4 ارب روپے بنتی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ 2017ء کی نسبت 2018ء میں نہ صرف ٹی وی کو ملنے والے اشتہارات میں 2 فیصد کمی ہوئی بلکہ اس کا ریونیو بھی 9 فیصد کم رہا۔ اشتہارات کی مد میں ہونے والی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ وفاقی حکومت، رئیل اسٹیٹ سیکٹر، تعلیم، مالیاتی سیکٹر اور بڑے دوا ساز ادارے ہیں۔

بیانیے پر کنٹرول 

چونکہ علیم خان نے اس خبر کے بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا ہے لہٰذا ہم یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ کہ وہ سماء ٹی وی کو کیوں خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم اتنا جانتے ہیں کہ وہ آزاد میڈیا اور صحافت کو پسند کرنے والے ہیں اور اسی وجہ سے وہ چینل (اگر سماء کو خریدتے ہیں تو) کو مکمل ادارہ جاتی آزادی دیں گے اور اس بات کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ اُن کی ذات اور پارٹی کے بارے میں آزادی سے رپورٹنگ کر سکے۔ تاہم ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ علیم خان اس بات کا بھی ادراک رکھتے ہیں کہ ٹی وی کی ملکیت کو کس طرح معلومات کو پھیلانے یا پوشیدہ رکھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ برس اپنی کتاب کی تعارفی تقریب کے موقع پر ظفر صدیقی سے پوچھا گیا کہ لوگ میڈیا کے کاروبار میں کیوں آتے ہیں ؟ تو ان کا جواب تھا کہ ’لوگ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے دوسرے کاروباری مفادات کو تحفظ ملتا ہے اور یہ کاروبار اُن کے لیے ’دروازے کھولتا‘ ہے، میڈیا انڈسٹری میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اس کاروبار سے طویل عرصے سے وابستہ ہیں۔‘

اشتہارات کے ریونیو میں کمی کرکے میڈیا پر اپنا اثر قائم کرنے کی حکومتی کوشش کو ذہن میں رکھ کر سوچا جائے تو علیم خان کی جانب سے سماء کی خریداری کی کوشش کو ممکنہ طور پر پی ٹی آئی کی جانب سے میڈیا انڈسٹری کو ڈھکے چھپے انداز میں ایک مثبت پیغام سمجھا جا سکتا ہے تاہم اگر یہ تاثر درست ثابت نہ ہوا تو اس اقدام (علیم خان کی جانب سے سماء کی خریداری) سے لوگوں کے آزاد میڈیا اور صحافت پر پہلے سے کم ہوتے اعتماد میں مزید کمی ہو گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here