اسلام آباد: مالی سال 2021-22 میں حکومت کا سبسڈی کے لیے مناسب وسائل، بہتر ریکوری اور ڈسکوز کے ترسیلی اور تقسیمی نظام میں بہتری لانے میں ناکامی سے توانائی کے شعبے کا گردشی قرض 2.7 کھرب روپے تک جانے کا امکان ہے۔
میڈیا رپورٹس میں باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاور ڈویژن نے مالی سال 2021-22 میں پاور سیکٹر کے لیے 501 ارب روپے کی سبسڈی طلب کی ہے لیکن پاور ڈویژن کو رسمی طور پر آگاہ کیا گیا کہ 330 ارب روپے سے زائد سبسڈی مختص نہیں کی جائے گی جس سے پتا چلتا ہے کہ بقیہ کے غیرمختص شدہ 170 ارب روپے کو گردشی قرض میں شامل کیا جائے گا۔
کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے حالیہ اجلاس میں پاور ڈویژن نے ایک نوٹ میں کہا کہ جاری مالی سال کے آخر تک مجموعی گردشی قرض 2.48 کھرب روپے جانے کا اندازہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران توانائی سیکٹر کے گردشی قرض کی مالیت 1.1 کھرب روپے تھی جس میں سیاسی دباؤ کی وجہ سے موجودہ حکومت کی مطلوبہ پالیسی فیصلوں میں ناکامی سے نمایاں اضافہ ہوا۔
ذرائع نے کہا کہ حکومت نے حالیہ دنوں میں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدوں کے مطابق بجلی کے ٹیرف نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے عالمی اداروں نے حکومت سے موجودہ توانائی سیکٹر کے بحران سے نمٹنے کے لیے متبادل منصوبہ بندی طلب کی ہے۔
3 جون 2021ء کو وزیرخزانہ شوکت ترین نے میڈیا کو بتایا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو بجلی ٹیرف میں اضافے کی بجائے گردشی قرض کم کرنے کے لیے متبادل طریقہ کار تجویز کیے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گردشی قرض اب کم ہو رہا ہے اور حکومت اس بابت مزید اقدامات کرے گی۔
حکومت نے چند ماہ قبل نیبپرا کی طرف سے قرض کی قسطوں کے لیے بجلی 3.34 روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کے حوالے سے یکم جون 2021 سے صارفین کے لیے 1.39 روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کا وعدہ کیا تھا جس میں سے 1.95 روپے فی یونٹ پہلے ہی ریکور کیے جا چکے ہیں۔
اپریل 2021 کے لیے 2 جون 2021 کو ایف سی اے پر عوامی سماعت کے دوران چئیرمین نیپرا سے یکم جون 2021 سے 1.39 روپے فی یونٹ کے متوقع اضافے سے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جب ستمبر یا اکتوبر میں موجودہ سہ ماہی کی ٹریف ایڈجسٹمنٹ کی معیاد ختم ہو جائے تو اس تاثر کو کچھ ایڈجسٹمنٹ کےساتھ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔
ایک سرکاری ذرائع نے بتایا کہ نیپبرا نے روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر کے فرق کی بنیاد پر ٹیرف 3.34 روپے فی یونٹ بڑھانے کا اعادہ کیا تھا جو اب 1.54 روپے فی یونٹ تک آ گیا ہے جو ایک روپیہ بجت کی تجویز کرتا ہے جبکہ بقیہ کے 39 پیسہ فی یونٹ کی ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی اور ٹیرف محض پیسہ کی صورت میں بڑھایا جائے گا۔
معاونِ خصوصی برائے توانائی اور پیٹرولیم تابش گوہر جو عالمی بینک سے مذاکرات کر رہے ہیں نے گردشی قرض کم کرنے کی کچھ ابتدائی تجاویز پیش کی ہیں۔ عالمی بینک کا مالی سال 2021-22ء میں توانائی کے شعبے کے لیے 1 ارب ڈالر قرض توسیع متوقع ہے۔
پاور ڈویژن نے دعویٰ کیا کہ گردشی قرض جاری مالی سال کے آخر تک گزشتہ مالی سال 2019-20ء میں 538 ارب روپے قرض کے مقابلے میں 38 فیصد یا 330 ارب روپے کم کیا جائے گا۔
جاری مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے 460 ارب روپے کے مقابلے میں گردشی قرض میں 189 ارب روپے سے 260 ارب روپے کمی دیکھی گئی ہے۔
رواں سال اپریل تک ملکی توانائی کے شعبے کا گردشی قرض 2.41 کھرب روپے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ گردشی قرض کا بڑا حصہ عدم ادائیگی اور بغیر بجٹ کی سبسڈیز کی مد میں 100 ارب روپے سے زائد بنتا ہے۔ توانائی کی ترسیلی کمپنیوں کے نقصانات اور خراب کارکردگی کا تخمینہ 21 ارب روپے ہے۔
سال 2019-20ء میں انڈی پینڈینٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو واجبات کا حجم 1.038 کھرب روپے تھا جو مالی سال 2020-21ء میں 1.432 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے جبکہ جینکوز کے واجبات گزشتہ سال کے 105 ارب روپے کے مقابلے میں 101 ارب روپے ہوں گے۔
گزشتہ سال کی ایڈجسٹمنٹ کے ایک بڑے حصہ کی مالیت 208 ارب روپے ہے۔ نیپرا کے نقصانات کا کھاتہ مفروضہ کی بنیاد پر ہے جبکہ پاور سیکٹر کے نقصانات وقتاََ فوقتاَ سامنے آتے ہیں۔
سرکاری دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاری مالی سال کے اختتام تک پی ایچ پی ایل میں قرضوں کی مالیت گزشتہ سال کے 1.007 کھرب روپے کے مقابلے میں 948 ارب روپے ہو جائے گی۔
گردشی قرض کی مد میں 260 ارب روپے کے بریک اَپ کے مطابق 28 ارب روپے عدم ادائیگی کی سبسڈیز، 74 ارب روپے بغیر بجٹ کے سبسڈیز، 61 ارب روپے آئی پی پیز کو ادائیگی میں تاخیر پر سود کی مد میں، 29 ارب روپے ایچ پی ایل مارک اپ، 60 ارب روپے زیرِ التواء پیداواری لاگت، 61 ارب روپے کے الیکٹرک کی طرف سے عدم ادائیگی، 21 ارب روپے ڈسکوز سے ہونے والے نقصانات اور 99 ارب روپے کی گزشتہ ایڈجسٹمنٹس شامل ہیں۔